میں ہی انجام میں ہی ابتدا ہوں

میں ہی انجام میں ہی ابتدا ہوں
تھما وقفہ ہوں میں ہی سلسلہ ہوں


مزاج دل مرا گوشہ گزیں ہے
زمانے کی نظر میں نک چڑھا ہوں


فسانہ نصف ہی ظاہر ہے میرا
ہنسی میں غم چھپاتا مسخرا ہوں


جو غربت میں بھی دل کو دے رئیسی
میں مفلس کا وہیں اک حوصلہ ہوں


کتابوں میں جو یکجا ہو نہ پایا
وہ دائم زندگی کا تجربہ ہوں