بات دل کی کوئی ان کہی رہ گئی
بات دل کی کوئی ان کہی رہ گئی
ہونٹھ چپ اور نظر یہ جھکی رہ گئی
خط کا ہر حرف ہم نے جلایا مگر
لفظ در لفظ وابستگی رہ گئی
تھا چراغوں سا روشن کبھی گھر مرا
ساتھ چھوٹا تو بس تیرگی رہ گئی
داستاں غم کی شاعر بیاں کر گیا
لفظ کی دیکھ جادوگری رہ گئی
عمر بھر مشغلہ جس کو ہم نے کہا
بند صفحوں میں وہ شاعری رہ گئی
بھیگی ان پلکوں سے یہ بیاں ہو گیا
کوئی خواہش کہیں اک دبی رہ گئی
یوں تو حاصل جہاں میں ہوا سب مگر
یہ کتاب تمنا کھلی رہ گئی
ایک میں ایک تم اور زمانہ یہ اک
روز دیوار کوئی کھڑی رہ گئی