میں بھی کیا ضبط آزماتا ہوں
میں بھی کیا ضبط آزماتا ہوں
توبہ کرتا ہوں بھول جاتا ہوں
غم سا رہتا ہوں تجھ سے دوری میں
اور قربت میں کھو سا جاتا ہوں
اپنی ہستی کی عظمتیں اکثر
انکساری سے جھک کے پاتا ہوں
کیوں مقید ہوں ذات میں اپنی
جبکہ دنیا سے دل لگاتا ہوں
اس کی زلفوں کو اب کے سلجھا کر
خود کو الجھا ہوا سا پاتا ہوں
جانے والے کو یہ نہیں معلوم
میں تصور میں اس کو لاتا ہوں
غم گساری میں دوست کی عادلؔ
رنج سہتا ہوں مسکراتا ہوں