میں افسانہ کیوں کر لکھتا ہوں


میرے قصے اکثر کسی نہ کسی مشاہدہ یا تجربہ پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر محض واقعہ کے اظہار کے لئے میں کہانیاں نہیں لکھتا۔ میں اس میں کسی فلسفیانہ یا جذباتی حقیقت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ جب تک اس قسم کی کوئی بنیاد نہیں ملتی میرا قلم ہی نہیں اٹھتا۔ زمین تیار ہونے پر میں کیریکٹروں کی تخلیق کرتا ہوں۔ بعض اوقات تاریخ کے مطالعہ سے بھی پلاٹ مل جاتے ہیں لیکن کوئی واقعہ افسانہ نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ کسی نفسیاتی حقیقت کا اظہار نہ کرے۔میں جب تک کوئی افسانہ اول سے آخر تک ذہن میں نہ جما لوں لکھنے نہیں بیٹھتا۔ کیریکٹروں کا اختراع اس اعتبار سے کرتا ہوں کہ اس افسانے کے حسب حال ہوں۔ میں اس کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ افسانے کی بنیاد کسی پرلطف واقعہ پر رکھوں۔ مگرافسانے میں نفسیاتی کلائمکس موجود ہو تو خواہ وہ کسی واقعہ سے تعلق رکھتا ہو، میں اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ ابھی میں نے ہندی میں ایک افسانہ لکھا ہے جس کا نام ہے ’دل کی رانی۔‘ میں نے تاریخ اسلام میں تیمور کی زندگی کا ایک واقعہ پڑھا تھا۔ جس میں حمیدہ بیگم سے اس کی شادی کا ذکر ہے۔ مجھے فوراً اس تاریخی واقعہ کے ڈرامائی پہلو کا خیال آیا۔ تاریخ میں کلائمیکس کیسے پیدا ہو؟ اس کی فکر ہوئی۔ حمیدہ بیگم نے بچپن میں اپنے باپ سے فن حرب کی تعلیم پائی تھی اور میدان جنگ میں کچھ تجربہ بھی حاصل کیا تھا۔ تیمورؔ نے ہزارہا ترکوں کو قتل کردیا تھا۔ ایسے دشمن قوم سے ایک ترک عورت کی طرح مانوس ہوئی؟ یہ عقدہ حل ہوجانے سے کلائمیکس نکل آتا تھا۔ تیمورؔ وجیہہ نہ تھا اس لئے ضرورت ہوئی کہ اس میں ایسے اخلاقی اور جذباتی محاسن پیدا کئے جائیں جو ایک عالی نفس خاتون کو اس کی طرف مائل کر سکیں۔ اس طرح وہ قصہ تیار ہو گیا۔کبھی کبھی سنے سنائے واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر افسانہ کی بنیاد آسانی سے رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن کوئی واقعہ محض لچھے دار اور چست عبارت میں لکھنے اور انشا پردازانہ کمالات کی بنا پر افسانہ نہیں ہوتا۔ میں ان میں کلائمیکس لازمی چیز سمجھتا ہوں اور وہ بھی نفسیاتی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ افسانے کے مدارج اس طرح قائم کئے جائیں کہ کلائمیکس قریب تر آجائے۔ جب کوئی ایسا موقع آجاتا ہے جہاں ذرا طبیعت پرزور ڈال کر ادبی یا شاعرانہ کیفیت پیدا کی جاسکتی ہے تو میں اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہی کیفیت افسانے کی روح ہے۔میں سست رفتار بھی ہوں۔ مہینے بھر میں شاید میں نے کبھی دو افسانوں سے زائد نہیں لکھے۔ بعض اوقات تو مہینوں کوئی افسانہ نہیں لکھتا۔ واقعہ اور کیریکٹر تو سب مل جاتے ہیں لیکن نفسیاتی بنیاد بہ مشکل ملتی ہے۔ یہ مسئلہ حل ہو جانے پر افسانہ لکھنے میں دیر نہیں لگتی۔ مگران چند سطور سے افسانہ نویس کے حقائق بیان نہیں کر سکتا۔ یہ ایک ذہنی امر ہے۔ سیکھنے سے بھی لوگ افسانہ نویس بن جاتے ہیں۔ لیکن شاعری کی طرح اس کے لئے بھی اور ادب کے ہر شعبہ کے لئے کچھ فطری مناسبت ضروری ہے۔ فطرت آپ سے آپ پلاٹ بناتی ہے۔ ڈرامائی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ تاثیر لاتی ہے۔ ادبی خوبیاں جمع کرتی ہے۔ نادانستہ طور پر آپ ہی آپ سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔ ہاں قصہ ختم ہو جانے کے بعد میں خود اسے پڑھتا ہوں۔ اگراس میں کچھ ندرت، کچھ جدت، کچھ حقیقت کی تازگی، کچھ حرکت پیدا کرنے کی قوت کا احساس پیدا ہوتا ہے تو میں اسے کامیاب افسانہ کہتا ہوں ورنہ سمجھتا ہوں فیل ہوگیا۔ حالانکہ فیل اور پاس دونوں افسانے شائع ہو جاتے ہیں۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس اضافے کو میں نے فیل سمجھا تھا اسے احباب نے بہت زیادہ پسند کیا۔ اسی لئے میں اپنے معیار پر زیادہ اعتبار نہیں کرتا۔

نوٹایڈیٹر ’نیرنگ خیال‘ نے ملک کے مشہور افسانہ نگاروں سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ افسانہ کیوں کر لکھتے ہیں؟ مندرجہ بالا سطور میں منشی پریم چند کا وہ جواب ہے۔ جو انہوں نے اس استفسار کا دیا تھا۔