محو زاری تو رکھا دل کی لگی نے شب بھر
محو زاری تو رکھا دل کی لگی نے شب بھر
لیکن آنسو بھی جو پونچھے تو اسی نے شب بھر
یہ مرے دل کی چمک ہے کہ تری آنکھ کا نور
ذہن میں ناچتے رہتے ہیں نگینے شب بھر
روحیں دم ساز ہیں تو جسم بھی ہم راز بنیں
یوں تو تڑپیں گے یہ جلتے ہوئے سینے شب بھر
اجنبی جان کے ڈرتے رہے سب دروازے
میری آواز نہ پہچانی کسی نے شب بھر
دل کے بیتاب سمندر میں تمنا بن کر
ڈوبتے تیرتے رہتے ہیں سفینے شب بھر
اس کے بام فلک آثار کی تصویر میں گم
میری تخئیل بناتی رہی زینے شب بھر
جہاں بیداریاں بیٹھی ہیں محافظ بن کر
ہم نے خوابوں میں نکالے وہ دفینے شب بھر
آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اب دن میں جسے
کتنا بے چین رکھا مجھ کو اسی نے شب بھر
شعر ہی کہئے کہ شاید ملے تسکین انجمؔ
یوں تو یہ چاندنی دے گی نہیں جینے شب بھر