محاذ علم پہ چھایا ہوا اندھیرا ہے

محاذ علم پہ چھایا ہوا اندھیرا ہے
خرد کی راہ کو دیوانگی نے گھیرا ہے


چمن کی خاک میں عبرت کی داستانیں ہیں
سسک رہی ہیں بہاریں خزاں کا ڈیرا ہے


چراغ دیر و حرم جل گئے مگر اب بھی
جدھر نگاہ اٹھاؤ ادھر اندھیرا ہے


سمندروں پہ ستاروں پہ نظم عالم پر
نہ اختیار تمہارا ہے اور نہ میرا ہے


ہزار رنگ بھری زندگی پہ ناز نہ کر
قدم سنبھل کے اٹھا موت کا اندھیرا ہے


یہ آتے جاتے ہوئے اجنبی نہ سمجھیں گے
گدا نصیب بتا دے کدھر کا پھیرا ہے


یہ کچی نیند کی آنکھیں یہ سرمگیں تیور
اندھیری رات کے دامن میں بھی سویرا ہے


قدم قدم پہ وفا کے دیے جلا کے چلو
سنا ہے فضلؔ عدم میں بہت اندھیرا ہے