شام فرقت کے ستارے تو اثر تک ٹھہرے
شام فرقت کے ستارے تو اثر تک ٹھہرے
ہاں وفادار تھے آنسو جو سحر تک ٹھہرے
جلوے دیکھے تو ملک اور بشر تک ٹھہرے
سجدے کرنے کے لیے شمس و قمر تک ٹھہرے
داستاں رنگ پر آئی تو زمانہ بدلا
ڈوبتے تارے بھی آغاز سحر تک ٹھہرے
کہہ دے کھلتی ہوئی کلیوں سے کوئی گلشن میں
اتنا ہلکا ہو تبسم کہ نظر تک ٹھہرے
جگمگاتی ہوئی موجوں کا تو کیا ذکر کوئی
کشتی آتے ہوئے دیکھی تو بھنور تک ٹھہرے