رنگ اور روپ میں سونے سے کھری ہوتی ہے
رنگ اور روپ میں سونے سے کھری ہوتی ہے
دل کی وہ رگ جو محبت سے بھری ہوتی ہے
آشیانے کو پنپنے نہیں دیتی دنیا
برق گر پڑتی ہے جب شاخ ہری ہوتی ہے
جھینپ جاتا ہے چٹکتی ہوئی کلیوں کا شباب
مست آنکھوں میں اگر نیند بھری ہوتی ہے
اشک برساتی ہوئی آتی ہے گلشن میں بہار
پھول کھلتے ہیں تو شبنم کی تری ہوتی ہے
عرش و کرسی و فلک دیر و حرم کعبۂ دل
پھر بھی محدود تری جلوہ گری ہوتی ہے
کہکشاں دیکھتی ہے اس کی تجلی کا نکھار
جس کی انگڑائی میں جادو اثری ہوتی ہے
دن کو گر دھوپ کی چادر میں سکوں ملتا ہے
رات اب ختم چراغ سحری ہوتی ہے
یاد آ جاتی ہے خود اپنی نکھرتی توبہ
جام میں جب مئے خوش رنگ بھری ہوتی ہے
چاہے لفظوں میں کہے چاہے اشاروں سے کہے
فضلؔ جو بات بھی کہتا ہے کھری ہوتی ہے