معلوم اگرچہ ہے کہ موسم یہ کڑا ہے

معلوم اگرچہ ہے کہ موسم یہ کڑا ہے
دل پھر بھی گلابوں کے لئے ضد پہ اڑا ہے


یاد آئے ہیں پھر لوگ مجھے شہر جفا کے
اک تیر ستم یوں بھی میرے دل میں گڑا ہے


وہ جس سے عبادت کی طرح کی تھی محبت
وہ شخص زمانے کے لئے مجھ سے لڑا ہے


میت کو مری دیکھ کے بولا وہ ستم گر
اٹھ جائے گا پھر سے یہ اداکار بڑا ہے


جس موڑ پہ بدلی تھی ڈگر اس نے مبارکؔ
کہنا کہ اسی موڑ پہ دیوانہ کھڑا ہے