لوگوں کے پاس درد کی دولت نہیں رہی
لوگوں کے پاس درد کی دولت نہیں رہی
یعنی کسی کو کوئی ضرورت نہیں رہی
مصروف اس قدر کیا اس کی تلاش نے
مجھ کو تو خود سے ملنے کی فرصت نہیں رہی
دنیا نے حرف حرف میں تقسیم کر دیا
اب زندگی کسی سے عبارت نہیں رہی
اچھا ہوا کہ ترک تعلق ہی کر لیا
آنکھوں کو انتظار کی زحمت نہیں رہی
میں کیا کروں دماغ نے تختہ الٹ دیا
اب دل پہ دوست تیری حکومت نہیں رہی
گم ہو گئے ہیں سارے سلیقے وفاؤں کے
اب اس جہاں میں رسم محبت نہیں رہی
رسوائیوں نے گھر کی وہ سر ہی جھکا دیا
یوں شہر میں وہ اونچی عمارت نہیں رہی
رخسارؔ مفلسی کے کرشمے عجیب ہیں
غربت میں دوستی بھی سلامت نہیں رہی