لوٹتے وقت کی بے کیف تھکن کو بھولیں

لوٹتے وقت کی بے کیف تھکن کو بھولیں
کس کے گھر جائیں کہ اس وعدہ شکن کو بھولیں


سہمی آنکھوں کے سوالوں کی تپن یاد رکھیں
تھرتھراتے ہوئے ہونٹوں کی کپن کو بھولیں


گرم سانسوں کی جلن سرد سی آہوں کی تپن
کیسے ممکن ہے کہ اس شعلہ بدن کو بھولیں


شعر کہنے ہی نہیں دیتی ہیں یادیں تیری
تجھ کو بھولیں تو یہ ایسا ہے کہ فن کو بھولیں


ہم وفا کیش ہیں میرے دل اندیشہ شناس
اک ترے خوف سے کیا اپنے چلن کو بھولیں


مسکراتے ہی جہاں پھول کھلے جاتے ہوں
مرنا بہتر ہے جو اس شوخ بدن کو بھولیں