لکڑبگھا چپ ہو گیا

اسٹیشن سے گاڑی نکلے ابھی ذرا ہی دیر ہوئی تھی کہ سیکڑوں فولادی قینچیوں پہ چلتی ریل گاڑی نے سیٹی بجائی۔ انجن سے گارڈ کے ڈبے تک تمام ڈبوں کے بریک چرچرائے اور شروع ہوتی برساتی رات تلے روشن اور نیم روشن کوپے چپ چاپ کھڑے ہوگئے۔ ریل کے شور میں دبی مسافروں کی آوازیں بلند اور واضح ہو گئی تھیں۔

کھڑکیوں کے شیشوں کے باہر تیز بارش شروع ہو چکی تھی۔ ماہوٹ کی بارش کا پانی ڈبے کی چھت سے بہہ کر شیشوں تک آتا، بوند بوند کرکے آہستہ آہستہ نیچے سرکتا اور جب کئی بوندیں کسی جگہ مل جاتیں تو ایک بڑی بوند بن کر نم لکیر بناتا کھڑکی کے نچلے حصے کی طرف بہتا چلا جاتا۔ اسے یہ کھیل دیکھنے میں مزہ آ رہا تھا۔

’’کیوں رک گئی؟‘‘ نانا نے برابر والے سے پوچھا۔ وہ نانا کے پہلو سے لگا بیٹھا تھا، کسمسایا اور پھر بوندوں کا کھیل دیکھنے لگا۔

’’کیا معلوم۔۔۔ کالج کے لونڈوں نے زنجیر کھینچ دی ہوگی۔‘‘ سامنے بیٹھا مونچھوں والا مسافر بولا۔

’’آج تو اتوار تھا۔ کوئی اور بات ہے۔ ذرا دیکھنا بھائی۔ کیا چکر ہے؟‘‘

’’باہر بہت بارش ہے بڑے میاں۔‘‘ کھچا کھچ بھرے ڈبے میں وہ جگہ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔

نانا نے کھڑکی اوپر سرکائی ہی تھی کہ ٹھنڈی ہوا اور تیز بوچھار اندر گھس آئی۔ کئی مسافروں نے احتجاج کیا لیکن نانا نے کھڑکی کے باہر سر نکال کر دیکھ ہی لیا۔ نانا کی گردن کے نیچے سے سر نکال کر اس نے بھی دیکھا۔ خاموش برساتی رات میں دور والے سگنل کی سرخ آنکھ روشن تھی۔ وہ ڈر گیا اور سراندر کر کے چپ چاپ بیٹھ گیا۔ نانا نے کھڑکی بند کر دی۔ وہ ان کے اور قریب سرک آیا۔ ایک دم کالی رات میں لال لال روشنی! سامنے بیٹھی اس سے ذرا بڑی عمر کی لڑکی اسکارف میں چپکے سے مسکرائی۔ وہ اس کی طرف بہت دیر سے دیکھ رہی تھی اور اس کا ڈر محسوس کر رہی تھی۔ لڑکی کو مسکراتا دیکھ کر اسے شرمندگی محسوس ہوئی۔

’’ڈبل لائن ہوتی تو گاڑی ایسے ہی تھوڑے رک جاتی۔‘‘ نانا نے چہرے کا پانی رومال سے خشک کرتے ہوئے گویا اپنے آپ سے کہا۔ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ گاڑی کی لائن تو ڈبل ہی ہوتی ہے۔ اکیلی پٹری پر گاڑی کے دونوں طرف کے پہیے کیسے چل سکتے ہیں بھلا۔ نانا کی طرف اس نے پوچھنے والے انداز سے دیکھا۔ مونچھوں والا اس کا سوال سمجھ گیا۔

’’ایسا ہوتا ہے بیٹے کہ اگر ایک ہی پٹری پر آنے جانے والی دونوں طرف کی گاڑیاں چلتی ہیں تو اگلے اسٹیشن پر ادھر سے آنے والی گاڑی روک دیتے ہیں۔ جب ایک طرف کی گاڑی پاس ہوجاتی ہے تو دوسری طرف کی گاڑی چھوڑتے ہیں۔‘‘

’’تو ہماری گاڑی کیوں روک دی۔ ہماری گاڑی نے تو ابھی ابھی چلنا شروع کیا تھا۔‘‘ اس نے مونچھوں والے کے بجائے نانا سے سوال کیا۔ یہ بات اسکارف والی لڑکی کی سمجھ میں بھی نہیں آئی تھی۔ وہ بھی بڑے میاں کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی۔

’’در اصل ادھر والی گاڑی ابھی اسٹیشن پر آئی نہیں ہوگی۔‘‘ نانا نے بتایا۔ جو شخص بہت دیر سے اوپر کی برتھ پر لیٹا ایک موٹی سی پرانی کتاب پڑھ رہا تھا، بولا، ’’پٹری ایک ہے اور گاڑیاں بہت۔ اور کوئی گاڑی ابھی اسٹیشن پر نہیں پہنچی ہے۔ سب بیچ میں ہیں۔ اسی لیے گاڑی روک دی۔۔۔‘‘ پھر وہی آدمی زور سےچلایا، ’’کون ہے جو روکتا ہے گاڑیاں؟‘‘ اتنے حصے کے سارے مسافر منھ اٹھائے، بے تکے جملے بولنے والے اس شخص کو دیکھ رہے تھے لیکن پھر کتاب والا آدمی کچھ نہیں بولا۔ تب اس کے ذہن میں ایک بات آئی۔ اس نے نانا کا کاندھا پکڑ کر بہت یقینی انداز میں کہا، ’’ہیں نانا۔ اسٹیشن بابو روکتے ہوں گے گاڑیاں؟‘‘

’’ہاں بیٹا۔‘‘

وہ دل ہی دل میں خوش ہوا کہ جو بات موٹی کتاب والا نہیں جانتا وہ اسے معلوم تھی۔ اس نے بہت فخر کے ساتھ اسکارف والی لڑکی کی طرف دیکھا۔ وہ اس وقت اپنی چھوٹی بہن کے لیے بسکٹ کا ڈبہ کھول رہی تھی۔ معلوم نہیں اس نے سنا کہ نہیں، ’’چلتی ہوئی گاڑیاں اسٹیشن بابو روکتے ہیں۔‘‘ اس نے چلا کر کہا۔ نانا، مونچھوں والا، وہ لڑکی اور سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ اس نےمحسوس کیا کہ اس کی آواز زور سے نکل گئی تھی۔ وہ جھینپ مٹانے کے لیے نانا کے رومال کا چوہا بنانے لگا۔ اور تب اس نے دیکھا کہ اسکارف والی لڑکی نے اپنی بہن کی آنکھ بچاکر آدھے سے زیادہ بسکٹ اپنی فراک کی جیب میں رکھ لیے ہیں۔ یہ دیکھ کر اسے ایک انجانا سا دکھ ہوا۔ اس نے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ دور بستی کی روشنیاں بارش کے پس منظر میں آڑی ترچھی متحرک کرنیں بنا بنا کر چمک رہی تھیں۔ اچانک گاڑی سے تھوڑی دور چار دیواری میں بنے مکان میں بلب روشن ہوا۔ اس روشنی میں اس نے دیکھا کہ بڑے سے مکان کے بڑے سے برآمدے میں ایک بڑی سی میز پر ایک بڑا سا کتا بڑا سا منھ پھاڑے کھڑا ہے۔

’’نانا۔ نانا۔ دیکھیے میز پرکتا کھڑا ہے۔‘‘ اس نے نانا کا کندھا ہلا کر کہا۔ نانا نے ادھر منھ کیا اور آنکھیں چندھی کر کے اس طرف دیکھا اور مسکرائے۔

’’نہیں بیٹے، یہ کتاب نہیں لکڑ بگھا ہے۔ ایس۔ پی صاحب نےاس خونی لکڑبگھے کو اکیلے مارا تھا۔ میں نے اخبار میں پڑھا تھا۔ اس کی کھال میں بھوسہ بھروا کر برآمدے میں سجاوٹ کے لیے لگا رکھا ہے۔‘‘

’’لکڑ بگھا کون ہوتا ہے نانا؟‘‘ اس نے ڈر محسوس کیا۔ تب اسکارف والی لڑکی نے جلدی سے کہا، ’’لکڑ بگھا اصل میں بھیڑیا ہوتا ہے۔‘‘

’’بھیڑیا کون ہوتا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’بھیڑیا! بھیڑیا!‘‘ وہ رک گئی۔ سوچنے لگی پھر بولی، ’’بھیڑیا اور لکڑ بگھا سب ایک جیسے جانور ہوتے ہیں۔‘‘ تب مونچھوں والے نے کہا، ’’مگر یہ لکڑ بگھا ذرا الگ تھا۔ یہ ہنستا بھی تھا اورمرتے دم رویا بھی تھا۔‘‘

’’ارے!‘‘ اس کے منھ سے بس اتنا ہی نکلا۔ اس نے نانا کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ تب مونچھوں والا بولا، ’’اسی لیے جب اس کی ٹرافی بنی تو کاریگر نے کمال ہی کر دیا۔ اس کا منھ پھیلا کر جبڑوں میں ایک تنکا ایسے پھنسا دیا کہ منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ کبھی لگتا ہے یہ ہنس رہا ہے۔ کبھی لگتا ہے منھ پھاڑے رو رہا ہے۔‘‘ یہ سب سن کر اس کے بدن میں تھر تھری سی دوڑ گئی۔ تب اوپر سے کتاب والے نے بھاری آواز میں کہا، ’’یہ ہمیشہ ہنستا ہی رہتا ہے۔ یہ ہمیشہ روتا ہی رہتا ہے۔‘‘

اس نے پہلے تو اسکارف والی لڑکی کی طرف دیکھا۔ پھر ہمت کر کے آہستہ آہستہ نظریں ادھر کیں اور کھڑکی کے باہر چاردیواری میں بنے مکان کے برآمدے میں میز پہ کھڑے اس لکڑ بگھے کو دیکھا۔ اسے لگا جیسے وہ ہنس رہا ہے۔ اسے لگا جیسے وہ رو رہا ہے۔ اچانک کسی نے کھڑکی کے باہر سے چلا کر کہا، ’’دروازہ کھلوا دو بھائی صاحب۔ آخری گاڑی ہے۔ میرا جانا بہت ضروری ہے۔ میری مدد کرو خدا کے لیے۔‘‘ نانا نے کھڑکی کے شیشے پہ ہاتھ رکھے رکھے باہر کھڑے شخص کو دیکھا جو دھیمی روشنی کے باوجود بہت بے تاب نظر آرہا تھا۔ اس نے ہنستے روتے لکڑبگھے کی جانب سے نگاہیں واپس کھینچیں اور دیکھا کہ دھندلے شیشوں کے پیچھے وہ آدمی بارش میں بالکل شرابور ہو چکا ہے۔ اس کے ہاتھ میں پلاسٹک کا ایک تھیلا جیسا تھا جسے بچانے کے لیے وہ جان توڑ کوشش کر رہا تھا۔

’’دروازہ نہیں کھلے گا۔ اسٹیشن پر کیوں نہیں بیٹھ گیا تھا۔‘‘ مونچھوں والا گرجا۔ باہر والے نے منھ پھلا کر سانس کے زور سے پھونک مار کر بالوں اور چہرے سے بہتی پانی کی بوندوں کو دھکیلا اور ایسے چلایا جیسے ڈوبتا ہوا آدمی چلاتا ہے، ’’دروازہ کھلوا دو میں سب بتا دوں گا۔ جلدی کرو بھائی صاحب جلدی۔ گاڑی چل دے گی۔‘‘

’’آج کل کا کوئی ٹھیک نہیں ہے۔ معلوم نہیں کوئی چور اچکا ہو۔ دروازہ مت کھلنے دینا۔‘‘ ڈبے کے اندر کوئی مسافر بولا تھا۔ اس نے دیکھا کہ نانا شش و پنج میں تھے۔ اب باہر والے نے تھیلا ایک ہاتھ میں پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے کھڑکی کا شیشہ پیٹنا شروع کر دیا تھا۔

’’یہ مت کرو جی۔ صبح والی گاڑی سے چلے آنا۔ ڈبے میں ویسے ہی جگہ نہیں ہے۔‘‘ نانا نے چلا کر کہا۔

’’دروازے میں بیٹھ جاؤں گا۔ بھائی کے لیے خون کی بوتل لے کر جا رہا ہوں۔ صبح اس کا آپریشن ہے۔ نہیں پہنچا تو وہ مر جائے گا۔ جلدی کرو بابا۔ گاڑی چلنے ہی والی ہے۔‘‘ وہ رحم طلب نظروں سے سب کی طرف دیکھ کر بولا۔

’’بہروپیا ہے۔ جھوٹا ہے۔‘‘ مونچھوں والا پھر گرج کر بولا۔ اپنی گرج سے وہ باہر والے کو کم، اندر والوں کو زیادہ ڈرانا چاہتا تھا۔ در اصل ڈبہ کھچا کھچ بھرا ہواتھا۔ گیلری تک میں آدمی بھرے پڑے تھے۔ دروازے کاشیشہ اور شٹر سب بند تھے۔ اسی لیے وہ دروازے سے ملی کھڑکی میں بیٹھے بڑے میاں سے رحم طلب کر رہا تھا۔ اسکارف والی لڑکی کی ماں اپنے پچھلے سفر میں ملے کسی چور کا ذکر بلند آواز میں کرنے لگی تھی۔

’’میں چور نہیں ہوں۔ قسم سے میں چور نہیں ہوں۔‘‘ بارش کے شور میں اس کی آواز دب رہی تھی، ابھر رہی تھی۔ نانا کے پہلو سے لگے لگے اس نے محسوس کیا کہ اس کی رگیں کھنچ رہی ہیں اور کوئی چیز سینے میں بری طرح گھٹ رہی ہے۔

’’نانا۔ نانا۔ دروازہ کھلوا دو۔ دیکھو اس کا بھائی مر جائے گا۔ نانا۔ میں کھول آؤں؟‘‘

’’بیٹھے رہو تم۔‘‘ نانا کے بولنے سے پہلے مونچھوں والے نے ڈپٹ کر کہا۔ اس نے سہمی سہمی نظروں سے مونچھوں والے کی طرف دیکھا، پھر نانا کی طرف دیکھا جو خاموش تھے۔ پھر اسکارف والی کو دیکھا جو سب کچھ سن رہی تھی اور کچھ سوچ رہی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھڑکی کے باہر چاردیواری میں بنے مکان کے برآمدے میں میز پر کھڑے منھ پھاڑے لکڑبگھے کو دیکھ لیتی تھی۔ اس کو اپنی طرف دیکھتا محسوس کرکے اسکارف والی نے اس کی طرف دیکھا۔ اس بار وہ مسکرائی نہیں تھی۔

اسکارف والی کی سوچ کو محسوس کر کے اس نے اپنے اندر ہمت محسوس کی اور سوچا کہ یہ مونچھوں والا شخص بڑا کمینہ ہے۔ یہ تو خود چور جیسا لگتا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے جب نانا نے گاڑی رکنے کی وجہ جاننے کو کہا تھا تو کیسا بہانہ ملا رہا تھا کہ باہر بارش ہے۔ کوئی نیچے تھوڑے ہی اتر کر دیکھنا تھا۔ اس کو ڈر لگ رہا تھا کہ کوئی اس کے اٹھتے ہی اس کی جگہ پر نہ بیٹھ جائے۔ کمینہ۔۔۔ مونچھیں ہونے پر بھی ڈرتا ہے کہ باہر والا آئے گا اور چور بن کر اسے کھا جائے گا۔ اصل میں ڈرتا ہے نا، باہر والا آئے گا تو تھوڑی جگہ گھیر لے گا اور اپنے بھیگے کپڑوں سے اسے بھگا دے گا۔ جھوٹا۔۔۔ مکار۔۔۔

نانا جو کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے، اب کھڑکی کے شیشے سے رستے پانی میں آہستہ آہستہ بھیگنے لگے تھے۔ کھڑکی کے شیشوں پر اب باہر والے نے جنونی انداز میں ہاتھ مارنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے ہاتھ کی ضرب کی دھمک سے شیشوں پر چپکا پانی بار بار نانا کے کپڑوں پر چھلک آتا تھا۔ اچانک اس کے ننھے سے ذہن میں ایک بجلی سی کوندی، ’’نانا۔ اسے دروازہ کھول کر اندر کر لو۔ اس کا بھائی مرگیا تو سب پر گناہ پڑے گا۔ اسے کھڑکی کے پاس بٹھا دینا، تو تم بھی پانی سے بچ جاؤگے۔ ہیں نانا؟‘‘

نانا نے مونچھوں والے کا تاثر جاننے کے لیے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ مونچھوں والے کی ماتھے کی رگیں اس تجویز پر کھلنے لگی تھیں اور چڑھی ہوئی آنکھ کے انگارے ماند پڑنے لگے تھے اور آہستہ آہستہ چہرے کی سختی دور ہو رہی تھی۔ ننھے سے بچے کے مدد کے جذبے کو دیکھ کر اور اپنی اپنی سیٹ محفوظ خیال کر کے سب مطمئن نظر آرہے تھے۔ اسکارف والی کی ماں نے بھی پچھلے سفر کے چور کا قصہ درمیان میں چھوڑ دیا تھا اور نظریں نیچے کیے چھوٹی بچی کو کمبل میں لپیٹنے لگی تھی۔ باہر والا زور سے گھگھیا کر چیخا، ’’تم سب کو اپنےاپنے بھائیوں کا واسطہ۔ دروازہ کھلوا دو۔ بتی ہری ہوگئی ہے۔ گاڑی چلنے ہی والی ہے۔‘‘

اس نے نانا کی طرف دیکھا، تیزی سے اٹھا، مسافروں کی ٹانگوں سے الجھتا، ٹکراتا گھوم کر دروازے پر پہنچا۔ مسافر ہاں ہاں کرتے ہی رہ گئے، اس نے دروازہ کھول دیا۔ باہر والا بجلی کی طرح اندر آیا اور دروازہ بند کر کے زور زور سے ہانپنے لگا۔ وہ نیلے رنگ کی قمیص پہنے ہوئے تھا جو بدن پر چپک کر رہ گئی تھی۔

’’میں نے دروازہ کھولا ہے۔‘‘ اس نے نیلی قمیص والے کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھ کر کہا۔ نیلی قمیص والے نے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے وہ ایک ننھا سا فرشتہ ہو جو اپنے پنکھ گھر کی الماری میں بند کر آیا ہو۔

’’ہمارے نانا کے پاس کھڑکی کی طرف بیٹھ جانا۔ نانا پر پانی آنے لگا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ نیلی قمیص والے نے تھیلا احتیاط سے رکھ کر اپنے کپڑے اتارے۔ سردی میں تھرتھراتے کانپتے ہاتھوں سے اپنے کپڑوں کو کھڑکی کھول کر باہر نکال کر نچوڑا، پانی جھٹکا اور مونچھوں والے نے ترچھی نظر کر کے مشکوک انداز سے اس کے تھیلے کی طرف دیکھا۔ پلاسٹک کے تھیلے میں خون کی بوتلیں صاف نظر آ رہی تھیں۔ اسے مایوسی ہوئی۔ وہ بڑبڑایا، ’’آخر جب سگنل ہوگئے تو گاڑی چلتی کیوں نہیں؟‘‘ اس کا دل چاہا کہ ابھی گاڑی کچھ دیر اور کھڑی رہے۔ وہ لکڑ بگھے کو ٹھیک سے نہیں دیکھ سکا تھا۔ اسکارف والی اپنی ماں سے پوچھ رہی تھی کہ اگر منھ میں پھنسا تنکا گرجائے تو کیا پھر بھی لکڑ بگھے کا منھ ایسے ہی کھلا رہے گا۔

’’معلوم نہیں۔ گاڑی کیوں رکی کھڑی ہے کم بخت۔‘‘ اس کی ماں نے اونگھتے اونگھتے آنکھیں کھول کر کہا۔ نانا نے اسے بتانا شروع کیا، ’’یہ تو نہیں معلوم کہ یہ ہنسا کیوں تھا اور رویا کیوں تھا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اب بھی جب تیز ہوائیں چلتی ہیں اور اس کے کھلے ہوئے منھ سے ہو کر گزرتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ زور زور سے ہنس رہا ہے یا جیسے زور زور سے رو رہا ہے۔ پر بیٹا یہ ہے بڑا منحوس جانور۔ یہ جس دن مرا تھا اس کے دوسرے ہی دن کپتان پولس نے اپنا تبادلہ کرا لیا تھا۔ یہ ٹرافی تو اگلے ایس پی صاحب نے بنوائی تھی۔‘‘

اچانک نانا نے نیلی قمیص والے کی طرف دیکھ کر کہا، ’’ذرا کھڑکی گھیر کر بیٹھو جی۔ پانی مجھے بھگوئے دے رہا ہے۔‘‘ نانا کی اس بات نے اسے دکھ دیا۔ اچانک پوری گاڑی کی بجلی چلی گئی اور گھپ اندھیرا چھا گیا۔ اس نے سہم کر نانا کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ مسافروں نے ریل کی بدانتظامیوں پر گفتگو کرنا شروع کردی۔ نانا نے کھڑکی کے باہر جھانک کر دیکھا۔ گارڈ چھتری لگائے گزر رہا تھا۔

’’کیا ہوا گارڈ صاحب اندھیرا کیوں ہوگیا۔‘‘ نانا نے زور سے پوچھا۔

’’کچھ نہیں۔ بیٹھے رہو۔ ڈائنا کا تار نکل گیا ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ڈبے میں بالکل تاریکی تھی۔ بڑی مشکل سے ایک دوسرے کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ تاریکی کے ساتھ خاموشی بھی کہیں سے در آئی تھی۔ سکوت اور اندھیرا۔ اسی لیے باہر کا منظر کچھ اور روشن اور با آواز ہوگیا تھا۔ باہر بارش کا زور ٹوٹ رہا تھا لیکن ہوا تیز ہو گئی تھی۔ نیلی قمیص والے نے کھڑکی آدھی کھول لی تھی۔ اب بوچھار نہیں آ رہی تھی۔ باہر کوئی بھاگتا ہوا آیا اور نیلی قمیص والے کا بازو پکڑ کر بولا، ’’دروازہ کھول دو بھیا۔ اسٹیشن سے بھاگتا ہوا آرہا ہوں۔ گاڑی چھوٹ گئی تھی۔ بڑی مشکل سے مل پائی ہے۔‘‘ اس نے نانا کا ہاتھ پکڑے پکڑے مونچھوں والے کی طرف دیکھا۔ وہ اپنی سیٹ پر خود کو محفوظ سوچے مطمئن تھا اور اونگھ رہا تھا۔ اسی وقت ہوا کا ایک چھونکا ڈبے پر سے ہوتا ہوا چاردیواری میں بنے مکان کے برآمدے کی طرف گیا اور خاموش تاریک رات میں ایک ہولناک آواز ابھری۔ وہ کانپ گیا۔ نانا نے اسے لپٹاتے ہوئے سرگوشی کی، ’’دیکھو لکڑبگھا ایسے ہنستا ہے۔ اس طرح روتا ہے۔‘‘

اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔ لکڑ بگھا منھ پھاڑے کھڑا تھا۔ ہوائیں چل رہی تھیں اور وہ ہنس رہا تھا۔ رو رہا تھا۔ برآمدے کی روشنی میں اس کے جبڑے صاف نظر آرہے تھے جن میں نوکیلے دانت چمک رہے تھے۔ اسے اپنے اندر سنسنی دوڑتی محسوس ہوئی۔ اسکارف والی بھی اپنی ماں سے چمٹ کر بیٹھ گئی تھی۔ کھچا کھچ بھرے ڈبے میں سب خاموش تھے۔ باہر کھڑے آدمی نے نیلی قمیص والے کا شانہ زور زور سے ہلایا، ’’بھائی صاحب میری مدد کرو۔ میرے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ ابھی ابھی خبر ملی ہے۔ اس کی حالت بہت نازک ہے۔ اسپتال میں دم توڑ رہا ہے۔‘‘

نیلی قمیص والے نے اپنے تھیلے کو مضبوطی سے سنبھالا۔ باہر کھڑے گھگھیاتے خوشامد کرتے آدمی کا ہاتھ اپنے شانے سے ہٹایا، کھڑکی کا شیشہ گرایا اور اونگھنے لگا۔ اسکارف والی زور سے چلائی، ’’امی۔ امی۔ دیکھو۔ لکڑبگھا اب نہ ہنس رہا ہے، نہ رو رہا ہے۔ ہوا کے زور سے وہ تنکا گر گیا۔ لکڑ بگھا چپ ہوگیا امی۔‘‘

جو اتنی دیر سے سب کچھ سن رہا تھا، سب کچھ دیکھ رہا تھا، اس نے اپنی نانا کی کمر مضبوطی سے پکڑ کر نیلی قمیص والے کی آنکھوں میں دیکھا۔ نیلی قمیص والے کی آنکھیں اس کی آنکھوں سے چار ہوئیں اور ڈبے کے نیم تاریک سناٹے میں اس نے بہت واضح محسوس کیا کہ نیلی قمیص والے کی آنکھیں پہلے سے چھوٹی ہوگئی ہیں اور جبڑے آپس میں بھنچ گئے ہیں۔