ڈار سے بچھڑے

شروع جنوری کے آسمان میں ٹکے ستاروں کی جگمگاہٹ کہرے کی موٹی تہہ میں کہیں کہیں جھلک رہی تھی۔ جیپ کی ہیڈ لائٹس کی دو موٹی موٹی متوازی لکیریں آگے بڑھ رہی تھیں۔ سڑک بالکل سنسان تھی۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ سناٹے کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، یا پھر جیپ کے انجن کی آواز اور سڑک کے درختوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی سرگوشیاں۔۔۔ یکایک بھیگی ہوئی ہوا کے کوئی جھونکے بند جیپ کے اندر گھس آئے۔ میں نے بندوق ٹانگوں پر رکھ کر شکاری کوٹ کی بیلٹ کو مزید کسا اور گردن کو مفلر سے اچھی طرح لپیٹ لیا۔ جیسے جیسے رات گزر رہی تھی، جاڑا تیز ہوتا جا رہا تھا۔ ہوائیں کچھ دیر کو تھمیں تو میں نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگائی۔


گاڑی لاہور کی حدوں سے بہت آ گے نکل آئی تھی۔


’’غلام علی!‘‘ میں ڈرائیور سے مخاطب ہوا۔


’’جی حضور!‘‘


’’اور کتنی دور ہے شاہ گنج۔‘‘


’’بس صاحب تیس بتیس میل اور چلنا ہے۔‘‘


’’کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے پہنچنے سے پہلے چڑیا اٹھ جائے۔‘‘


’’کیا وقت ہوا ہو گا صاحب؟‘‘ اس نے جیپ کی رفتار تیز کر تے ہوئے پوچھا۔


میں نے سگریٹ کا ایک طویل کش لیا اور چنگاری کی روشنی میں گھڑی دیکھ لی۔


’’ساڑھے چار ہو چکے۔‘‘


’’تب تو آپ بے فکر رہیئے۔ ساڑھے پانچ چھ تک پہنچ جائیں گے۔۔۔ سات بجے کے قریب جا کر پوپھٹتی ہے۔۔۔ چڑیا اس کے بعد ہی اٹھتی ہے۔‘‘


پھر وہی سناٹا۔۔۔


’’شاہ گنج سے تمہارا گھر کتنی دور ہے؟‘‘


’’شاہ گنج سے پہلے مغل بادشاہ کی بنوائی ایک مسجد سڑک کے کنارے پڑتی ہے۔ اس کے پیچھے سے ایک کچا راستہ جاتا ہے۔ ناک کی سیدھ دو میل چلیں تو ہمارا گاؤں نظر آ جاتا ہے۔‘‘


’’کیا نام ہے تمھارے گاؤں کا؟‘‘ میں گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا تھا۔


’’خیراں والا۔‘‘


کیا بات کروں اس پنجابی ڈرائیور سے۔۔۔ پھر وہی خاموشی چھا گئی۔


سردیوں کی اندھیری رات کے پس منظر میں سڑک کے کنارے بوڑھے درختوں کے دھندلے خطوط آپس میں مخلوط ہو گئے تھے اور کہرے کے غبار میں مل کر سناٹا اتنا گاڑھا ہو گیا تھا کہ میں جیپ سے باہر ہاتھ نکال کر اسے چھو سکتا تھا۔ سگریٹ کا آخری کش لے کر میں نے سگریٹ باہر اچھال دیا۔ بہت سی چنگاریاں ملگجے اندھیرے میں ادھر ادھر کھو گئیں۔


’’صاحب آپ کو شکار کا شوق کب سے ہے؟‘‘


’’بچپن سے غلام علی۔‘‘


’’کیا ہندوستان میں شکار کھیلنے دیتے ہیں؟‘‘ گردن موڑے بغیر اس نے مجھ سے سوال کیا۔


’’ہاں بھئی سینتالیس سے پہلے تو کھیلا جاتا تھا۔ اب نہیں معلوم۔ اور اب تو یہ بھی خبر نہیں کہ جن دیواروں کے بیچ ہم پلے تھے وہ ڈھے گئیں کہ سلامت ہیں۔‘‘


’’آپ تو یوپی کے تھے صاحب۔‘‘


’’ہوں۔ میں نے اسے دھیرے سے جواب دیا میں نے چاہا کہ غلام علی سے منع کر دوں کہ ایسی کوئی بات نہ کرے کہ مجھے وہ سب کچھ یاد آجائے۔ لیکن میں چپ رہا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی میری اس کمزوری کو جان سکے۔ ورنہ اے غلام علی یہ جو تم نے ابھی پوچھا تھا آپ یو۔ پی کے تھے تو اس خطۂ زمین سے کوئی ناطہ نہیں رہا جہاں میرے بچپن نے متال کی لوریاں سنی تھیں، جہاں میرے لڑکپن نے چھوٹے چھوٹے جذبوں سے محبت کرنا سیکھا تھا۔ جہاں میرے عقل و ہوش کے بال و پر نکلے تھے۔


لیکن یہ سب کیسے کہتا۔۔۔ یہ غلام علی کیا سمجھتا ان باتوں کو۔۔۔ اور غلام علی ہی کیا اب تو میں خود بھی نہیں سمجھ پاتا اور سمجھتا بھی کیسے۔ تقسیم کی موٹی موٹی لکیروں کے نیچے ان سارے جذبوں کے نقوش چھپ گئے تھے۔ وہ جذبے جو صرف وہیں کا خاصہ ہوتے ہیں جہاں انسان پہلی بار آنکھ کھول کر د یکھتا ہے۔


ہوائیں مزید تیز ہو گئی تھیں او رکہرے کی چادر ویسی کی ویسی دبیز تھی۔


’’تو صاحب آپ پھر کبھی ہندوستان نہیں گئے؟‘‘ غلام علی نے پوچھا تھا۔۔۔


’’سرکاری افسر اتنی آسانی سے نہیں جا پاتے، سرکار پوچھتی ہے کس سے ملنے جا رہے ہو۔‘‘


’’کیا کوئی رشتہ دار وہاں نہیں ہے؟‘‘


’’سب بزدل تھے یہاں آ بسے۔ میں بھی بزدل تھا لیکن چھوٹا بز دل۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ سال تھی شاید۔ ہاں اٹھارہ ہی سال کا تھا میں۔‘‘


’’بز دلی کی کیا بات ہے صاحب، وہاں نہیں رہے یہاں آ گئے۔‘‘ غلام علی نے جیسے مجھے دلاسہ دیا۔ لیکن میں بھلا دلاسوں سے بہلتا!


’’یہ بت لمبا چوڑا فلسفہ غلام علی۔ تم نہیں سمجھوے گے۔‘‘


وہ تھوڑی دیر خاموش رہا۔ جیسے میں نے اس کی بے عزتی کر دی ہو۔ ’’میری بیوی کے ماں باپ بھی بھارت ہی کے تھے صاحب۔ مجھ سے بہت ضد کرتی ہے کہ ایک بار ہندوستان دکھا دوں۔ میں نے درخواست دی تو پوچھا گیا کہ وہاں رشتہ داروں کے نام پتے لکھواؤ۔۔۔ وہاں کوئی رشتہ دار ہی نہیں ہے صاحب۔ بس اسے اپنے گاؤں اور ضلع کا نام یاد ہے۔۔۔‘‘


سناٹا ہم دونوں پر خاموشی سے گزرتا رہا۔


’’غلام علی۔’’ میں اس سے مخاطب ہوا۔


’’جی!‘‘ اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا۔


’’تمہاری بیوی کہاں کی رہنے والی تھی۔‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر سوال کیا۔


’’ہردوئی ضلع کی صاحب۔‘‘


’’ہوں۔۔۔ یوپی کی ہے تمہاری بیوی؟‘‘


’’جی حضور۔‘‘ میں نے اندھیرے میں بھی محسوس کر لیا کہ وہ مسکرا رہا ہے۔


میں نے جان لیا تم اس وقت کیوں مسکرائے غلام علی۔


’’صاحب ایک بات کہوں آپ سے۔ میری بیوی کو معلوم ہے کہ آپ یو۔ پی کے ہیں۔ مجھ سے کہہ رہی تھی کہ تمھارا صاحب یو۔ پی کا ہے، میرے وطن کا، مجھے اس کے پاس لے چلو۔ وہ میرا پرمٹ بنوادے گا۔۔۔ تو حضور اسے معلوم ہے کہ آج آپ شکار کھیلنے آ رہے ہیں تو گھر پر بھی تھوڑا سا رکیں گے۔ وہ آپ سے کہے تو ذرا سختی سے منع کر دیجئے گا کہ اس کا پر مٹ نہیں بن سکتا۔‘‘


’’کیوں غلام علی ایسا کیوں کہوں میں۔ پاسپورٹ تو میں اس کا کسی نہ کسی طرح بنوا ہی سکتا ہوں۔‘‘


’’پاسپورٹ کی بات نہیں صاحب۔ آدمی کی زندگی میں ایک ہی جھنجھٹ تھوڑی ہوتا ہے۔ اسے تو بیکار کا شوق ہے بھارت جانے کا۔ اس کا شوق پورا کرنے میں میرے چار پان سو اٹھ جائیں گے۔‘‘


’’ہوں۔‘‘ میری سمجھ میں نہ آیا اسے کیا جواب دوں۔۔۔ غلام علی نے میری خاموشی سے فائدہ اٹھایا۔


’’صاحب میرا ایک دوست ہے وزیرالدین اس کی بیوی بھی بھارت ہی میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نے چوری چھپے پرمٹ بنوا لیا اور پھر کانوں کا زیور بیچ کر وزیرالدین سے اجازت مانگی۔ وزیرالدین کو معلوم ہوا تو اسے اچنبھا ہوا او رغصہ بھی آیا۔۔۔ اس نے اوپری دل سے اجازت دے دی اور رات کو اس کے بکسے سے پرمٹ نکال کر جلا دیا۔ صبح اٹھی تو پرمٹ غائب۔ اس نے بڑا فیل مچایا اور وزیرالدین سے کہا کہ یہ اسی کا کام ہے۔ وزیر نے پہلے تو بہانے ملائے اور پھر صاحب ڈنڈا لے کر جٹ پڑا کہ حرامزادی تین چار مہینے تک کیا تیری اماں مجھے روٹی پکا کر کھلائے گی۔‘‘


غلام علی سے سڑک نے نظریں موڑ کر میری طرف ایسے دیکھا جیسے اپنے دوست کی بہادری اور دانش مندی کی داد چاہتا ہو۔


میں خاموش رہا۔۔۔ اندھیرے میں وہ مجھے صاف صاف نہیں دیکھ سکا، سمجھا کہ میں بیٹھے بیٹھے سو گیا ہوں۔


اس نے میری طرف سے گردن موڑ کر سڑک کو دیکھا اور جیپ کی رفتار کچھ اور بڑھا دی۔


رفتار بڑھی تو ہوا کچھ اور تیز محسوس ہونے لگی۔


مجھے ابھی ابھی یہ بھی محسوس ہوا کہ جیپ کے باہر سڑک پر اور درختوں پر ہوائیں بہت تیز ہو گئی ہیں۔۔۔ اور درخت کے پتوں سے کچھ ایسی آوازیں پھوٹ رہی ہیں جو ماحول کو بے حد پر اسرار بنا دیتی ہیں۔ باہر کے اس پر شور ماحول میں مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیپ میں بے پناہ خاموشی ہے۔ جیسے بپھری ہوئی موجوں کے سمندر میں کوئی اکیلا جہاز چلا جا رہا ہو جس کے عملے کو بحری قزاقوں نے قتل کر دیا ہو میں نے بدن کچھ اور سکوڑ لیا او رسوچا۔۔۔


غلام علی۔۔۔ تم بہت کمینے ہو اور بہت بھولے ہو۔۔۔ تم اور تمھارا دوست نہیں جانتے کہ اس جگہ سے بچھڑ کر انسان کی کیا حالت ہو جاتی ہے جہاں اس نے پیدا ہو کر ماں کی چھاتیوں سے دودھ پیا ہو اور باپ کی شفیق انگلیوں کا لمس اپنے سر پر محسوس کیا ہو۔۔۔ تمہیں نہیں معلوم کہ انسان کو وہ جگہ کتی پیاری لگتی ہے جہاں اس کا بچپن لڑکپن سے گلے ملا ہو۔ تمھیں اس کا علم ہی نہیں غلام علی کہ انسان ان لمحوں کو کتنا عزیز رکھتا ہے جن لمحوں میں اس کا بھولا بھالا ذہن معصوم، سر پھرے اور خود سرجذبوں کو خون پلا پلا کر پالتا ہے۔ تم کچھ نہیں جانتے۔ کچھ بھی نہیں۔ اسٹیرنگ کا گول پہیہ گھماتے گھماتے تمھارا دماغ بھی گھوم گیا ہے۔


مجھے محسوس ہوا کہ اتنا سوچنے کے بعد مجھے ایکا ایکی غلام علی سے نفرت ہو گئی۔


میرے اندر سے کوئی بولا۔ تم غلام علی سے نفرت نہیں کر رہے ہو۔ تم وہی کر رہے ہو جو پچھلے تیس سال سے کرتے چلے آرہے ہو۔ تمھیں اپنی محرومیاں نظر آ گئیں نا! تم غلام علی جیسے ہر اس فرد سے فوراً نفرت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہو جو تمھاری محرومیوں کی عمارت میں ایک چھوٹی سی اینٹ رکھنے کا بھی خطاوار ہو۔۔۔ اس بے چارے نے کیا کیا؟ صرف اپنی بیوی اور اپنے دوست کی بیوی کے متعلق بتایا تھا۔ بس تھوڑی دیر کو انجام میں یہ احساس دلا دیا یا یوں کہو کہ تمہیں یاد دلا دیا کہ تم ہندوستان کبھی نہیں جا سکتے۔ اس لیے تم اس سے نفرت کرنے لگے۔ اپنی محرومیوں کی آڑ لے کر اس بیچارے پہ کیوں بگڑ رہے ہو۔


میرا اندر والا بہت خود سر ہو گیا ہے کچھ عرصے سے، 65 اور 71 کی لڑائیوں کے بعد تو یہ کچھ اور بھی بے باک ہو گیا ہے۔ ایسے ایسے سوال پوچھ بیٹھتا ہے کہ جواب نہیں بن پڑتے۔ جیسے موت کی سزا کا فیصلہ سننے کے بعد مجرم من مانی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ جانتا ہے کہ اس سے بڑی سزا ممکن نہیں ویسے ہی یہ بھی ہر خوف، ہر خطرے سے آزاد ہو گیا ہے۔ بلا سوچے سمجھے ہر بات کر گزرتا ہے۔ اب کیا جواب دوں اسے؟


مجھے محسوس ہوا کہ اب دماغ میں سوچنے کے لیے کچھ نہیں رہا۔ جیسے ذہن کے تالاب سے سوچ کی ساری مرغابیاں اڑ گئی ہوں۔ میں نے سر پیچھے نکا ل لیا۔


’’صاحب۔‘‘ غلام علی نے دبی دبی آواز میں مجھے پکارا۔۔۔ اتنے دھیمے کہ اگر میں ذرا بھی نیند میں غافل ہوتا تو نہیں سن پاتا۔ شاید اس کا بھی یہی مقصد ہو۔


’’ہوں۔۔۔‘‘ میں نے محسوس کیا کہ میری آواز کچھ اجنبی سی ہو گئی ہے۔


’’صاحب آپ سو گئے تھے کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔


’’نہیں۔۔۔ کیوں کوئی خاص بات؟‘‘


’’نہیں حضور۔۔۔ ویسے آپ نے دیکھا جب سے لڑائی کے بعد راستے کھلے لوگ کتنے خوش خوش بھارت جارہے ہیں اور وہاں والے کتنے ہنستے بولتے پاکستان آ رہے ہیں۔۔۔ راستے کھلے کتنے ہی دن ہو گئے مگر اب تک تانتا سا لگا ہے۔‘‘


خاموشی۔۔۔ میں خاموش رہا جیسے ایک لفظ بھی بولا تو پھٹ پڑوں گا۔


’’صاحب او صاحب آپ نے سنا میں نے کیا کہا؟‘‘


میں نے چپکے سے گردن موڑ کر سڑک کو دیکھا جو پیچھے بھاگتی چلی جا رہی تھی۔ بالکل تاریک اور سنسان۔۔۔


میں نے اندھیرے میں آنکھیں جما دیں اور سوچا۔۔۔


تم نے پھر اپنی کمینگی کا ثبوت دیا غلام علی۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ان راستوں کے کھلنے کا مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ میں اب بھی وہاں نہیں جا سکتا۔ تم جان بوجھ کر میرے زخموں کو کرید رہے ہو۔۔۔


غلام علی مجھ سے مایوس ہو کر ڈرائیو کرتا رہا۔


مجھے ابھی ابھی یہ خیال آیا کہ میں تو خیر ایسے عہدے پر فائز ہوں کہ ہندوستان جا ہی نہیں سکتا۔۔۔ لیکن غلام علی اور وزیرالدین کی بیویوں پر کیوں اتنی مجبوریاں لاد دی گیہ ہیں۔ انھیں اس سر زمین کو دیکھنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی جس کے تصور کے بغیر ان کی زندگی کی تاریخ ادھوری ہے۔


غلام علی یہ جو تم خاموشی سے بیٹھے ڈرائیو کر رہے ہو تو اتنے بھولے تو نہیں ہو۔ تم سال میں مجھ سے تین مرتبہ چھٹیاں لے کر اپنے والدین سے ملنے کراچی تو جا سکتے ہو۔ ہردوئی نہیں جاسکتے۔ ہردوئی بھی تو لاہور سے اتنا ہی دور ہے جتنا کراچی۔۔۔ کیا کراچی جانے میں تمھارے پیسے نہیں خرچ ہوتے۔ کیا کراچی کا ٹکٹ مفت ملتا ہے۔ لیکن میں تم سے یہ سوال کیوں پوچھوں۔ مجھے کیا حق ہے اور مجھے تو یہ پوچھنے کا بھی حق نہیں ہے کہ تمھارا دوست وزیرالدین کیا تین چار مہینے ہوٹل کی روٹی نہیں کھا سکتا کہ ان تین چار مہینوں میں اس کی بیوی تیس برسوں کی محرومی کے بعد اس آب و ہوا میں جا کر سانسیں لے سکتی ہے جہاں اس نے اپنے بچپن کو تھپکیاں دے کر سلایا تھا۔ جوانی کو آگے بڑھ کر خوش آمدید کہا تھا۔ مجھے ان سوالوں کے پوچھنے کا حق اس لیے اور بھی نہیں ہے غلام علی کہ سوال وہ پوچھتے ہیں جن کو جواب نہیں معلوم ہوتے۔ میں تیس سال سے سوالات تخلیق کر کے جوابات گڑھ رہا ہوں۔ میں اس معاملے کی ہر نزاکت سے واقف ہو گیا ہوں۔۔۔ لیکن ہر جواب ادھوارا ہے غلام علی کیوں کہ جس دن میں نے خود کو صحیح جواب دے دیا اس دن یہ سوال کرنے کا مشغلہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ غلام علی کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بھیانک جواب میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ہے۔ میں فوراً کوئی ٹیڑھا سا سوال کر دیتا ہوں۔ اور تب تک سوالات کرتا رہتا ہوں جب تک وہ خوف ناک جواب مبہم ہو کر۔۔۔ میری نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ مجھے بہت خوف آتا ہے صحیح جوابوں سے۔۔۔


’’صاحب مسجد آ رہی ہے۔ غلام نے مجھے بتایا۔۔۔‘‘ ابھی پو پھٹنے میں بہت دیر ہے۔ میرے گھر چلنا پڑے گا آپ کو۔ نہیں تو جمیلہ غم کرے گی۔۔۔‘‘


’’ٹھیک ہے وقت ہو تو ضرور چلو۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم پہلے تالاب پر جائیں پھر تمھارے گھر جائیں۔‘‘


جیپ ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔۔۔ ہوائیں جو چلتی ہوئی گاڑی میں بہت پر شور اور ٹھنڈی تھیں ایکا ایکی مدھم پڑ گئیں۔


سڑک کے بائیں طرف وسیع اندھیروں کے پس منظر میں، کہرے میں لپٹے ہوئے مجھے ایک مسجد کے دھندلے خطوط نظر آئے۔ مسجد سے ذرا ہٹ کر ایک الاؤ جل رہا تھا اور اس کے گرد تین آدمی کھڑے تھے۔ اتنے حصے کے اندھیرے کو الاؤ نے نگل لیا تھا اور ان آدمیوں کے گرد ایک روشن حلقہ کھنچ گیا تھا۔۔۔ میں نے غور سے دیکھا۔ دو آدمیوں کے کندھوں پر بندوقیں لٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ جیپ رکنے پر وہ ہماری طرف متوجہ ہو گئے تھے۔


غلام علی بڑ بڑاتا ہوا نیچے اتر آیا۔۔۔


میں سمجھ گیا غلام علی کیوں بڑ بڑایا۔ دوسرے شکاریوں کو دیکھ کر وہ ہمیشہ ایسے ہی ناراض ہو جاتا ہے۔۔۔


بندوق ہاتھ میں سنبھالے میں نیچے اترا آیا۔۔۔ ٹھنڈی ہوائیں میرے کپڑوں میں گھس گئیں اور کہرے کی نمی کو میں نے اپنے چہرے پر محسوس کیا۔ ان آدمیوں نے ایک طرف سمٹ کر الاؤ کے قریب جگہ بنائی جیسے مجھے خاموش دعوت دے رہے ہوں۔۔۔ غلام علی کو پیچھے آنے کا اشارہ کر کے میں الاؤ کی طرف بڑھ گیا۔


ان کی جیپ بھی قریب ہی اندھیرے میں کھڑی ہوئی تھی۔ ان میں ایک ڈرائیور کی وردی پہنے ہوئے تھا اور دو شکاری کوٹ لادے ہوئے تھے۔۔۔ الاؤ کے قریب دیر سے کھڑے رہنے کے باعث ان کے چہرے پر پسینہ پھوٹ آیا تھا۔۔۔ ان میں ایک صورت مجھے جانی پہچانی سی لگی۔ حافظے کی غیر مرئی لہروں پر ایک چہرہ تھرتھرا رہا تھا۔ لیکن وہ صورت اتنی مبہم اور غیر واضح تھی جیسے پرائمری اسکول کے زمانے کی لکھی ہوئی کلاس کی کاپیاں، جو بڑے ہونے کے بعد پہچانی بھی نہ جاسکیں اور بھلائی بھی نہ جا سکیں۔۔۔ الاؤ کی سرخ آنچ میں وہ چہرہ دہک رہا تھا۔ وہ صورت مجھے پر جانی پہچانی لگی۔۔۔ وہ شخص بھی مجھے بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ میں نے اس کے چہرے پر آنکھیں گاڑ دیں۔ اس نے اپنے ہاتھ الاؤ کے سامنے گرم کیے اور انھیں گالوں پر رکھ لیا۔۔۔ یادوں کی آنچ سے حافظے پر جمی ہوئی برف پگھلی اور میرے ذہن میں ماضی کے آئینہ خانے سج گئے۔ میں نے اس ایک لمحے میں تیس برس کا سفر طے کر لیا اور اتنی خاموشی سے یہ سفر کیا کہ مجھے محسوس ہی نہیں ہوا کہ کب میں یہاں سے وہاں پہنچ گیا۔۔۔ میرے ذہن میں ایک ساتھ بہت سی بجلیاں چمکیں اور بہت سے خاکے بن گئے اور ان خاکوں میں میرے حافظے نے بری سبک دستی سے بچپن کی امنگوں، لڑکپن کی جستجو اور شروع جوانی کے ولولوں کے بے حد خوشنما رنگ بھر دیے۔ میں نے یوپی کے گنگا جمنا کے دو آبے میں بسے اس قصبے کو بالکل واضح شکل و صورت میں اپنے ذہن کے پردے پر چمکتا ہوا دیکھا۔۔۔ وہاں کی مسجدیں دیکھیں، وہاں کے مندر دیکھے۔۔۔ وہاں کے سارے محلے ساری گلیاں، دیکھ ڈالیں۔ قصبے کے سارے کچے پکے گھر دیکھ ڈالے۔ اپنا مکتب دیکھا، پھر اسکول دیکھا۔ سارے بزرگ اور تمام ماسٹر شفیق چہرے لیے اپنے سامنے کھڑے دیکھے۔ میلوں کی دھوم دھام دیکھی اور دیہات کی جوان اور خوبصورت عورتوں کو نیلے پیلے اور سرخ گھا گھروں میں ہنستے بولتے میلے کی طرف بڑھتے دیکھا۔۔۔ گیہوں کے کھیتوں کے طویل سلسلے دیکھے اور دور دور تک آم کے باغ بور میں لدے ہوئے نظر آئے۔


اس ایک لمحے میں بچپن کی ساری شرارتیں نظر آگئیں۔ مئی جون کے تپتے ہوئے موسم میں سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے اپنے آپ کو دیکھ لیا۔۔۔ گرم لو سے اپنا بدن جھلستے ہوئے دیکھ لیا۔ اپنے سارے عزیز قطار اندر قطار کھڑے نظر آئے۔ کچھ ان میں وہیں سو گئے اور جو باقی رہ گئے تھے وہ اب صرف رشتہ دار رہ گئے تھے، عزیز نہیں۔


آئینہ خانے میں ایک عکس اور چمکا۔۔۔ دو لڑکے ہاتھوں میں ایر رائفل لیے چلے جا رہے ہیں۔ سورج جھک آیا ہے اور دن بھر کی خدمت اب صرف زرد روشنی بن کر رہ گئی ہے۔ بیر کے باغ میں تیتر بول رہے ہیں۔۔۔ ان لڑکوں میں سے ایک بیر کے باغ میں گھس گیا ہے اور دس منٹ بعد جب باہر آیا تو فاتحانہ انداز میں ہاتھ میں لٹکے بھورے تیتر کو دکھا رہا ہے۔ دوسرا لڑکا جو ہاتھ پیچھے کیے کھڑا تھا ہاتھ آگے کر دیتا ہے جس میں ایک ذبح کیا ہوا خرگوش الٹا لٹکا ہوا تھا۔ دونوں ہنس پڑتے ہیں، دونوں نے اپنے اپنے حصے کا شکار کر لیا تھا۔۔۔ پھر ایک عکس اور سامنے آیا۔۔۔ اب یہ لڑکے کچھ اور بڑے ہو گئے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ایر رائفل کی جگہ بندوقیں آ گئی ہیں۔۔۔ رمضان میں سحری کا ناشتہ کر نے کے بعد یہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آبی چڑیوں کے شکار کو جا رہے ہیں۔ دوپہر کو روزہ توڑنے کے لیے ماؤں نے تھیلوں میں افطار کا سامان بھر دیا ہے۔ پوس کی چاندنی رات میں برفیلی ہواؤں سے بدن بچاتا ہوا یہ قافلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔۔۔ فضا میں سائیں سائیں کی آوازیں مسلط ہیں۔ سب دل ہی دل میں تمنا کر رہے ہیں کہ سب سے زیادہ چڑیاں میرے ہاتھ سے شکار ہوں۔۔۔ اس بات پر سب بے حد خوش ہیں کہ گھر والوں کو بے وقوف بنا کر روزہ گول کر دیا ہے۔ اب یہ قافلہ نہر کی پٹری سے اتر کر تالاب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تالاب سے دو فرلانگ دور بیٹھ کر اسکیم بنا ئی جا رہی ہے کہ کہاں سے کسے فائر کرنا ہے۔۔۔ یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ چڑیا تالاب کے کس حصے میں ہو گی۔۔۔ اندھیرا چھاب، پوپھٹی، سورج نے کہرے کا مفلر اتار کر چہرہ دکھایا تو معلوم ہوا کہ تالاب با لکل چاندی جیسا پڑا ہے۔ سب ایک دوسرے پر ملامت کر رہے ہیں اور توجیہہ پیش کر رہے ہیں کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ چڑیاں نہیں صرف سارس بول رہے ہیں۔ پھر فاختاؤں اور بگلوں جیسے بہترین پرندوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ سہہ پہر کو لوٹتے وقت مٹی کے ڈھیلوں سے رگڑ رگڑ کر ہونٹوں کو خشک کیا جاتا رہا ہے تاکہ گھر والے جان نہ پائیں روزہ بھی ذ بح کر دیا ہے۔ راستے میں تھکن کی وجہ سے گفتگو کرنا تک محال ہو رہا ہے۔ لڑکپن کی کچی ہڈیوں پر جسم کا بوجھ سنباتلے گھر کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ سامنے بستی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ دور سے قصبے کی دھند لی سرحدوں پر مسجدوں کے سیاہ کائی زدہ گنبد اور مینار خاموش کھڑے ہیں۔ کسی کو اچانک یاد آ گیا اور فاختاؤں اور بگلوں کے پر ادھیڑ دیے گئے تاکہ جب یہ گھر میں داخل ہوں تو ہریل اور بڑے چہروں کی حیثیت سے ان کا استقبال کیا جائے۔


ایک کے بعد ایک ایسے ہی بہت سے عکس نظروں کے سامنے چھماکے مارتے ہوئے گزر گئے جن میں بچپن سے لے کر شروع جوانی تک سارے منظر تھے اور ہر منظر میں دونوں لڑکے ساتھ ساتھ ہیں۔


’’صاحب۔۔۔ اب چلیے گاؤں کی طرف۔۔۔‘‘ آئینہ خانوں میں غلام علی آواز نے پتھر مارا اور سارے آئینے چٹخ کے ٹوٹ گئے۔ سارے مناظر آپس میں گڈمڈ ہو گئے۔


میں نے غلام علی کی بات کا جواب نہیں دیا۔ میں نے حساب لگایا کہ یادوں کی کتنی چڑیاں ابھی میرے ذہن کے پنجرے میں بند ہیں اور سامنے کھڑا یہ شکاری میری کتنی یادوں کا حاصل جمع ہے۔


اس نے پھر ہاتھوں کو گرم کر کے چہرے پر رکھا۔ نواب بھی تو ایسا ہی کرتا تھا۔ اور اب مجھے یقین کامل تھا کہ آئینہ خانے کا وہ لڑکا اپنی عمر میں ایک دم تیس برس جوڑ کر میرے سامنے کھڑا ہے۔


یکایک ہوا بالکل خاموش ہو گئی۔۔۔ الاؤ میں جلتی ہوئی درختوں کی ٹہنیاں چٹاچٹ بولیں، چنگاریاں فضا میں اڑنے لگیں۔ دور کسی سوئے ہوئے تالاب میں کوئی سارس زور سے چیخا۔۔۔


میں نے آہستگی سے الاؤ کی طرف ایک قدم بڑھایا اور اس شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔


’’آپ۔۔۔ تم۔۔۔ تم نواب ہو۔۔۔‘‘


اس کی پھیلی ہوئی آنکھیں ایک ثانیہ کو سکڑ گئیں۔ اس کا سر نفی میں ہلا۔ اس کی آنکھوں سے اتنے آنسو بہے کہ چہرے کے پسینے کو بھی بہالے گئے۔۔۔ جذبوں کی شدت اور آنچ کی حدت سے اس کا چہرہ انگارہ ہو گیا۔۔۔ اس نے بندوق کندھے سے اتر کر اپنے ساتھی کو تھمائی اور الاؤ کا پورا چکر کاٹ کر میرے قریب آیا اور میرے گلے سے لپٹ کر خاموش ہو گیا۔


’’اب تم ہر گز مت بتانا کہ تم کون ہو۔‘‘ تیس سال کے بعد میں نے وہ آواز سنی جو لگاتار سولہ سترہ سال تک سنی تھی۔


’’نہیں میں نہیں بتاؤں گا کہ میں کون ہوں‘‘۔۔۔ میں نے اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ خدا جانے کب تک ہم یوں ہی کھڑے رہے۔۔۔ الاؤ کی آگ، مدھم پڑنے لگی اور پتوں کی راکھ ہوا میں بکھر گئی۔


کہرا آہستہ آہستہ چھٹ رہا تھا۔۔۔ غلام علی اور اس کے دونوں ساتھی بت بنے حیرتی کھڑے ہمیں تکتے رہے۔۔۔ محبت کا ایک عالم ہم پر گزر رہا تھا۔۔۔ جب ایک عرصہ بیت گیا تو میں نے اس کا سر ہاتھوں میں تھام کر پینتالیس چھیا لیس برس کے اس پندرہ سالہ لڑکے کی پیشانی کو چوم لیا۔


’’غلام علی اب اتنا وقت نہیں ہے کہ تمہارے گھر جایا سکے۔ ایک بار تالاب پر ہو لیں، پھر چلیں گے تمہارے گھر۔۔۔‘‘


میں نے نواب کو بتایا کہ یہ میرا ڈرائیور غلام علی ہے۔ غلام علی نے اسے جھک کر بند گی کی۔۔۔


نواب نے بتایا کہ ایک اس کا ڈرائیور ہے اور دوسرا اس کی فیکٹری کا منیجر سلیم اللہ۔۔۔ میں نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔۔۔ وہ تیس بتیس برس کا ایک خوش رو نوجوان تھا۔۔۔ جیپیں شاہ گنج کے تالاب کی طرف موڑ دی گئیں۔


نواب مجھے بتا رہا تھا کہ ہندوستان سے آ کر اس نے کیسے کیسے پاپڑ بیلے اور کس طرح پلاسٹک کی چپلوں کی یہ فیکٹری لگا سکا۔۔۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ابھی اسے پچھلے دنوں یہ معلوم ہوا تھا کہ میں سپرنٹنڈنٹ پولیس ہو گیا ہوں اور میرا تبادلہ لاہور میں ہوا ہے۔


’’تم مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئے پھر؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔


’’مجھے یقین نہیں تھا کہ واقعی تم ہی ہو گے۔ بس نام سنا تھا۔‘‘


وہ مجھے بتا رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ شخصیتیں کتنی بے نشان ہو گئی ہیں کہ نام موجود ہونے کے باوجود نہیں پہچانی جاتیں۔۔۔ لیکن اس میں اکیلے نواب کا دوش نہیں ہے۔ میں بھی تو اخباروں میں ’’نواب اینڈ سنس‘‘ کا اشتہار دیکھ کر چونکا تھا۔۔۔ لیکن پھر یہ سوچ کر چپ ہو رہا تھا کہ کیا خبر یہ کوئی اور نواب ہو۔۔۔ ہم سب ایک سے گنگا ر ہیں۔ ہمیں ہر گز یہ حق نہیں پہنچاک کہ ہم ایک دوسرے پر الزام لگائیں۔


’’تم کراچی سے کیا شکار کھیلنے آئے ہو صرف؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔۔۔


’’نہیں بھئی۔۔۔ فیکٹری کے کام سے لاہور آیا تھا۔۔۔ پلین کا ٹکٹ کل کا ہے۔ سوچا ایک دن ملا ہے شکار کھیل لوں۔‘‘


جیپ کے باہر گیہوں کے سلسلے دور دور تک چلے گئے تھے اور ان کھیتوں کے پرے غیر واضح درختوں کی آڑ میں صبح کاذب دم توڑ ہی تھی اور صبح صادق کی دھند لی دھند لی چمک درختوں کے پس منظر میں آہستہ آہستہ نکھر رہی تھی۔۔۔ آسمان پر بہت سی بھیڑیں چر رہی تھیں۔ قائیں قائیں کی گھیو گھیم آوازوں سے اس بات کا اندازہ ہو رہا تھا کہ ہم کسی تالاب کے قریب ہیں۔ میں نے سامنے دیکھا۔ ایکھ کے کھیتوں کے ادھر مٹیالے اجالے میں دور دور تک پانی چمک رہا تھا لیکن یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ چڑیا تالاب کے کس حصے میں ہے۔ تھوڑا اجالا اور ہو تو چڑیا کی موجودگی کااندازہ کیا جاسکے۔


غلام علی نے جیپ روک دی۔۔۔


’’حوار اس سے آگے گاڑی گئی تو چڑیا انجن کی آواز سے بھڑک جائے گی۔۔۔


’’ظاہر ہے‘‘ کہتا ہوا نواب نیچے کود گیا۔۔۔ میں بھی اتر آیا۔


ابھی ابھی اترتے وقت میں نے سوچا کہ آج تیس سال کے بعد نواب میرے ساتھ ہے۔ آج بھی کہیں ایسا نہ ہو کہ سورج نکلے تو معلوم ہو کہ چڑیا تالاب میں ہے ہی نہیں۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سوچتے وقت میں بے ساختہ مسکرا اٹھا ہوں۔۔۔


’’سنو۔۔۔‘‘ نواب نے مجھے مخاطب کیا۔ ’’تمھیں یاد ہے ایک بار جب ہم لوگ تالاب پر گئے تھے تو تالاب نے کیسادھوکا دیا تھا۔۔۔ اجالا ہونے پر معلوم ہوا تھا کہ جن آوازوں کو ہم چڑیا کی آواز سمجھ رہے ہیں وہ چڑیا نہیں بلکہ۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔۔۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھا۔ بہت غور سے۔۔۔ شاید اسے علم ہو گیا تھا کہ میں بھی وہی سوچ ر ہا ہوں جو وہ سوچ رہا تھا۔


اس نے مفلر سے اپنی گردن کو اچھی طرح ڈھکا اور بندوق میں کارتوس لگا کر میرے بہت قریب آکر پراسرار انداز سے سر گوشیوں میں پوچھا۔۔۔


’’کیا تمھیں بھی وہی یاد آرہا تھا اس وقت؟‘‘


میں نے آہستہ سے گردن ہلادی۔ مجھے محسوس ہوا کہ ہم دونوں کو اچانک اپنی محرومیوں کا احسا س ہوا ہے۔ بے محابا۔ ڈھیٹ اور وحشی یادیں پھر میرے دماغ میں چاند ماری کرنے لگیں۔


دوسری جیپ پیچھے آ کر رکی۔ سلیم اللہ بندوق لے کر نیچے اتر آیا۔


’’چڑیا تو کافی بول رہی ہے۔‘‘ اس نے دھندلے دھندلے تالاب پر نظریں جما کر کہا۔


غلام علی ایکھ کے کونے پر گیا۔ اور تھوڑی دیر تک چڑیا کی آواز سے اندازہ کرتا رہا کہ کس جگہ بول رہی ہے اور پھر واپس آگیا۔


’’ویسے صاحب یہ بڑا تالاب ہے۔ دن بھر چڑیا پڑی رہتی ہے لیکن صبح کی ہون میں زیادہ ہوتی ہے اور غافل بھی ہوتی ہے۔ اسی وقت تو یہ چارا کھاتی ہے۔‘‘ غلام علی نے اپنی معلومات سے ہمیں مستفیض کیا۔


میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ تالاب کے اس کنارے پر سیاہی مائل گدلے آسمان میں روشن پھنکیاں پڑنے لگی تھی، اب کسی بھی وقت فائر ہو سکتا تھا۔۔۔ ہم لوگوں نے فوراً اپنی اپنی جگہ منتخب کر لی۔ میں اور نواب جوتوں سمیت کیچڑ میں گھس گئے اور گھوکتں گھوارں پانی میں پہنچ کر ایک اونچی منڈیر پر بیٹھ گئے جو تین طرف سے ایکھ سے گھری ہوئی تھی۔ سلیم اللہ بندوق لے کر آگے بڑھ گیا اور غلام علی اپنی ایک نالی سنبھالے ہوئے تالاب کے دوسرے سرے پر چلا گیا۔


ہم دونوں اس منڈیر پر خاموش بیٹھے رہے۔ جب تک کہرا چھٹ نہ جائے کسی قسم کی نقل و حرکت سے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ سورج نکلنے کے بعد فائر ہو سکتا تھا۔ آسمان کے مشرقی گوشے میں لمبے گلابی لہریے پڑنے لگے تھے۔۔۔ سورج نکلنے نکلنے ہی والاتھا۔


’’یہ سلیم اللہ بندوق کیسی چلانا ہے؟‘‘ میں نے سگریٹ سلگا کر پوچھا۔


’’بہت عمدہ۔۔۔ اچھا خاصا شکاری ہے۔‘‘ نواب نے میرے ہاتھ سے پیکٹ لیتے ہوئے بتایا۔ یکا یک تالاب کے دوسرے کنارے پر سارس زور زور سے بولے اور چڑیا کی تیز تیز سرگوشیاں بند ہو گئیں۔۔۔ شاید چڑیا کوشہک ہو گیا تھا۔


میں نے بندوق میں کارتوس لگالیے۔


’’نواب۔‘‘ میں نے اسے دھیرے سے پکارا۔


’’ہاں‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔


میں خاموش رہا۔


’’کیا بات ہے کچھ کہہ رہے تھے تم؟‘‘


’’ہاں۔۔۔ میں کہہ رہا تھا کہ کیا پاکستان آنے کے بعد کبھی دل نہیں چاہا کہ گھر واپس جاؤ۔‘‘


بڑا بھیانک سناٹا تھا جو ہم دونوں کے درمیان منھ پادڑے بیٹھا تھا۔۔۔ وہ بالکل خاموش رہا۔۔۔ مجھے یہ محسوس ہوا کہ سارس کی آوازیں سیکڑوں میل دور سے آ رہی ہیں، تالاب کا پانی ساکت ہو گیا ہے اور صبح کی تیز ہوائیں بالکل چپ ہو گئی ہیں۔


میں نے سوچا۔۔۔ نواب! تم گھبرا گئے۔۔۔ واقعی بڑا تلخ سوال پوچھ لیا میں نے لیکن مجھے اس کا بھی احساس ہے کہ اس کا جواب ان تلخیوں کو اور بوجھل کر دیے گا۔۔۔ لیکن مجھے اس کا جواب چاہیے۔ میں تو خیر مجبور ہوں۔۔۔ تمھارے آگے کون سی رکاوٹ تھی۔۔۔ وہاں کی گلیاں، محلے، میلے، ٹھیلے، کھیت کھلیان، گھر، اسکول، سب بھول گئے کیا۔ کچھ بھی یاد نہیں۔۔۔ وہاں کے تالاب کیا تمھارے ذ ہن میں سوکھ گئے۔۔۔ وہاں کے د رخت کیا تمھارے حافظے نے جلا د یے۔۔۔ میری آنکھیں اس کے چہرے پر جمی رہیں اور وہ نظریں بچاتا رہا۔


پھر بڑی مشکل سے بولا۔۔۔ ’’میں کراچی سے اگر ایک دن باہر رہوں تو دوہزار کا نقصان ہو جاتا ہے۔ ہندوستان جاؤں تو کم از کم چالیس پچاس ہزار کی چوٹ پڑے گی۔‘‘


یہ جواب دے کر وہ ایک دم بے خوف ہو گیا۔۔۔ مجھے اس کی آنکھوں سے اندازہ ہوا جیسے وہ پوچھ رہا ہے۔ ’’کیوں دوست! تم بھی تو یہ نوکری چھوڑ کر ہندوستان جا کر سب کھر دیکھ سکتے تھے۔۔۔ تم کیوں نہیں گئے۔۔۔ بولو اب میری باری ہے۔‘‘


مجھے اس کی آنکھوں سے بڑا خوف محسوس ہوا جیسے وہ میری ذات کی گہرائیوں میں اندر گھس کر کوئی ایسی چیز تلاش کر رہی ہوں جو میں سامنے لانا نہیں چاہتا۔


لیکن نواب نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا۔۔۔ میں نے اس پر ترس نہیں کھایا تھا مگر اس نے مجھ پر رحم کیا۔


ہم دونوں نے ایک لمحے کے بعد صرف ایک ہی بات سوچی کہ ہم لوگ بہت بے اختیار ہیں اور بہت لاچار ہیں اور بہت مجبور ہیں اور بہت بے بس ہیں۔ میں اگر ایک بار ہندوستان جانے کے لیے اس ملازمت سے استعفیٰ دے دوں تو گھر والوں کی زندگی کی گاڑی کیسے آگے بڑھے گی۔۔۔ اور نواب تم اگر فیکٹری چھوڑ کر بیس دن کو بھی پاکستان چھوڑ دو تو چالیس پچاس ہزار کا نقصان کون بھرے گا۔۔۔ سچ مچ ہم بہت بے سکت ہیں۔


تالاب کے اس کنارے پر ایکھ کے ادھر ایک پیلا دائرہ آسماں کے دھند لے پس منظر میں اوپر اٹھا۔۔۔ اس کا نچلا حصہ کچھ بے ڈول تھا۔۔۔ آہستہ آہستہ وہ دائرہ مکمل ہوا اور دھیمے دھیمے سرخ ہو گیا۔


دور تالاب کے کنارے کھڑے درختوں پر غنودہ پرندوں نے بیٹھی بیٹھی بوجھل آواز میں پکار کر ایک دوسرے سے کہا کہ پھر سورج نکل آیا۔ پچھم کے کسی گاؤں کے ایک بے خواب کتے نے روتے ہوئے اعلان کیا کہ صبح ہو رہی ہے۔۔۔ آسمان میں پرچھائیوں جیسے کچھ پرندے سورج کے آگے ہو کر نکل گئے۔۔۔ صبح کا وقت عموماً اتنا غمگین اور اداس نہیں ہوتا لیکن آج تھا کیوں کہ ہمارے دکھوں کا تعلق ماحول سے یا وقت کی کیفیتوں سے نہیں ہوتا بلکہ ہمارے دلوں سے ہوتا ہے اور آج ہمارے دل بہت اداس تھے۔


کہرا چھٹا اور تالاب کا پانی آہستہ آہستہ صاف ہوا تو میں نے دیکھا کہ آبی پرندوں کا جھنڈ سلیم اللہ کے کنارے کی طرف ہے۔ دور سے تالاب میں مرغابیاں ایسی لگ رہی تھیں جیسے کھیت میں مٹی کے ڈھیلے بچھے ہوں۔ ایک طرف گیتا کی قازیں پڑیں تھی۔۔۔ چھوٹے چہوں کا ایک پرا تالاب پر سر سرا رہا تھا۔۔۔ اور تالاب کے دوسرے کنارے پر دو سارس خاموش کھڑے تھے۔


یکایک میں نے محسوس کیا کہ چڑیا ہوشیار ہو گئی ہے۔۔۔ یک لخت، قیں قیں کی بہت سی آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں۔ غلام علی کی طرف سے پہلا فائر ہوا۔ مرغابیاں سرسر کرتی ہوئی اٹھیں اور اس حصے کا پانی ٹیڑھی لکیریں بنانے لگا۔ سیلم اللہ کی طرف سے دو فائر ہوئے اور دو مرغابیاں ڈھیلے بن کر زمین پر آر ہیں۔ سائیں سائیں کرتے ہوئے سیخ پر تالاب پر چکرا رہے تھے۔۔۔ قازوں نے ایک تکونی صف بنائی اور پورب کے کسی تالاب کی طرف دھواں ہو گئیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں چڑیاں آسمان پر چھائی ہوئی تھیں لیکن ہماری بندوقوں کی پہنچ سے دور تھیں۔


’’اگر یہ نالائق غلام علی فائر نہ کر تا تو چڑیاں ہمیں موقع دیتیں۔‘‘ میں جھنجھلایا۔۔۔


’’نہیں۔‘‘ نواب مسکرایا۔ ’’چڑیا پر تولنے ہی والی تھی جبھی غلام علی نے فائر کیا۔ دراصل زیادہ تر بیچ تالاب میں پڑی تھی۔ اگر کنارے پر ہوتی تو ہماری طرف سے ضرور اڑان بھرتی۔۔۔ چلو یہی غنیمت ہے کہ دو مرغابیاں ہاتھ لگ گئیں۔‘‘


تب مجھے سلیم اللہ کی ماری ہوئی مرغابیوں کا دھیان آیا۔ میں نے د یکھا سلیم اللہ بندوق ہاتھ میں اوپر اٹھائے کمر کمر پانی میں چڑیوں کے پیچھے جارہا ہے۔ مجھے سلیم اللہ بہت لمبا چوڑا دیو زاد سا لگا جو ہاتھ آگے پیچھے کرتا ہوا پانی کاٹتا، چلنے کی رفتار سے بھاگ رہا تھا۔


دوسرے کنارے سے غلام علی بندوق ہاتھ میں اٹھائے اس کا ساتھ دینے کے لیے دوڑا۔


’’میں آ رہا ہوں صاحب۔۔۔ گھیرے رہنا۔۔۔ اڑ جائیں گی۔۔۔‘‘ پانی کے اوپر تیرتی ہوئی اس کی آواز ہم تک آئی۔


’’نہیں، گھبراؤ مت۔۔۔ ان کے پر ٹوٹ گئے ہیں یہ اڑ نہیں سکتیں۔۔۔‘‘ سلیم اللہ کی یہ آواز پانی کی شرر شرر سے زیادہ مہیب اور بھیانک تھی۔


میں نے غور سے دیکھا۔۔۔ مرغابیاں پانی کی سطح پر پھڑک رہی تھیں او رزور زور سے پیر چلا رہی تھیں۔ واقعی دونوں کے پنکھ ٹوٹ گئے تھے۔ اچانک سلیم اللہ کا ہاتھ آگے بڑھا اور اس نے مرغابیاں دبوچ لیں۔ ایسا محسوس ہوا جیسے پورے ماحول میں ایک بے محابا سناٹا چھا گیا ہو۔۔۔ میں نے نواب کو دیکھا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔۔۔ اور ہم دونوں نے پاکستان، ہندوستان، چین اور منگولیا کے اوپر سائبیریا کے برفیلے میدانوں میں برف چومتے ہوئے ہزاروں معصوم پرندوں کو دیکھا، رنگ برنگے ہزاروں بھولے بھالے پچھیو ں کو دیکھا جو میدانوں میں بارہ سنگھوں کے اوپر قطار اندر قطار اڑ رہے ہیں۔ برف سے زیادہ شفاف جذبوں میں مگن ہیں، اور ایک دوسرے کے پروں میں منقار پھرا پھرا کر اپنی الفت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اچانک برف باری شروع ہو گئی ہے اور برف کے ذرات آسمان سے برسنے لگے ہیں۔ برف میں گلی ہوئی ہوائیں شدت اختیار کر گئی ہیں۔ موسم ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ اور تمام پرندے اپنے انڈے برف میں دبا کر صفیں بنا کر نشیب کے ٹھکانوں کی طرف پرواز کر رہے ہیں۔ اس گرمی کی تلاش میں جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہوتی ہے اور اپنے دل کے ٹکڑوں کو الوداع کہہ رہے ہیں جو انڈوں کے خول میں بند برف میں دبے ہوئے ہیں۔ پھر یہ پرندے گرم آب و ہوا کے ٹھکانوں تک آتے آتے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے ہیں۔ راستے الگ ہو گئے ہیں لیکن منزل ایک ہی ہے۔ وہی منزل جہاں زندہ رہنے کے قابل گرمی میسر آ سکے اور اس سے بھی آگے کی وہ منزل جب پھر اپنے برفیلے میدانوں میں سورج کی گرمی سے برف پگھلے اور سردی کم ہو اور موسم خوشگوار ہو جائے تو واپس برف چومنے اور بارہ سنگھوں کے جھنڈ پر پرواز کرنے کے لیے اپنے گھر واپس آ سکیں۔۔۔ اور پھر ہم دونوں نے دیکھا کہ ان معصوم پرندوں کے پر توڑ دیے گئے ہیں۔


سلیم اللہ ہم دونوں کے سامنے مرغابیاں دبوچے کھڑا تھا۔ میں نے دیکھا شاید نواب بھی دیکھ رہا ہو کہ ان بھولے بھالے پنچھیوں کی آنکھوں میں برفانی میدانوں سے زیادہ وسیع، تالابوں سے زیادہ گہرے اور ان کے پروں سے زیادہ خوشنما رنگوں کے سپنے سجے ہوئے ہیں۔۔۔ آنکھیں، جو تھوڑی دیر بعد بند ہونے والی ہیں، کہیں دور تک رہی تھیں۔ کچھ تلاش کر رہی تھیَ میں نے ان کی گول گول پتھرائی ہوئی آنکھوں میں بہت سے منظر دیکھے جو وہ آنکھیں اب کبھی نہیں دیکھ سکیں گی۔۔۔ میں نے ان کی آنکھوں میں جو منظر دیکھے ان میں نکیلی پتیوں والے بہت سے دیو قامت درخت تھے جو برف سے ڈھکے ہوئے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے بہت سے پرندے تھے، جو معصوم جذبوں اور امنگوں میں سرشار تھے۔ نیلے، ہرے اور زرد پروں والے بہت سے ساتھ تھے جن کی رفاقت انھیں میسر تھی۔


میں نے دل ہی دل میں کہا۔۔۔ الوداع۔۔۔ اے معصومو الوداع۔۔۔ ان رفیقوں کو بھول جاؤ۔ ان سرمستیوں کو فراموش کردو۔ نکیلی پتیوں والے درختوں کی بدمست شوخیوں کو دل سے نکال دو۔ ان عزیزون کو یاد کر کے اپنا دل مت دکھاؤ جنھیں انڈوں کے خول میں بند کر کے تم برف میں دبا آئے تھے۔ اب سب بھول جاؤ۔ تمہارے پنکھ ٹوٹ گئے ہیں نا۔ اب تم کبھی وہاں نہیں جاؤ گے۔۔۔ کبھی نہیں۔


غلام علی پہنچ چکا تھا۔ اس نے اور سلیم اللہ نے مل کر دونوں کو ذبح کیا۔ میں نے نواب کو دیکھا۔ وہ دوسری طرف منھ پھیرے کھڑا تھا۔


’’صاحب۔۔۔ اب دوپہر کو پھر آئیں گے۔ اس وقت تو چڑیا اڑ گئی۔ دوپہر کو پھر پڑے گی۔ تب تک گھر چلیے۔ کچھ ناشتہ پانی کر لیجیے۔‘‘


میں نے تالاب کی طرف ایک نظر دیکھا۔۔۔ پانی کفن کے کپڑے کی طرح یہاں سے وہاں تک پھیلا ہوا تھا۔۔۔ بالکل خاموش اور گمبھیر۔


سڑک پر سناٹا تھا اورجیپ میں خاموشی۔۔۔ ایسے ہی ہم غلام علی کے گھر تک پہنچے۔


’’یہ میرا جھونپڑا ہے۔‘‘ غلام علی جیپ روک دی۔ ایک پرانا پکی اینٹوں کا مکان تھا جس کے آگے کا چبوترہ کچا تھا۔۔۔ دروازے کے پیچھے بڑے گھیر کی شلوار پہنے دو ٹانگیں آ کر کھڑی ہو گئیں۔ غلام علی نے چبوترے پر پلنگ نکال کر ہم لوگوں کو بٹھایا۔


اور اندر جا کر واپس لوٹ آیا۔ میرے ذہن کو اتنا یار ابھی نہیں تھا کہ اس سے منع کر سکوں کہ زیادہ تکلف سے کام نہ لے۔


غلام علی نے مجھ سے کہا۔ ’’صاحب! آپ ذرا اندر چلیں۔ جمیلہ سے مل لیں۔ وہ ضد کر رہی ہے۔‘‘


میں نے نواب کو بتایا کہ اس کی بیوی ضلع ہر دوئی کی ہے۔ اسے معلوم ہو گیا ہے کہ میں بھی یو۔ پی کا ہوں۔ شاید پاسپورٹ کے لیے کچھ کہے۔


نواب مجھے دیکھتا رہا۔۔۔


دروازے سے داخل ہو کر میں اندر آنگن میں آگیا۔۔۔ غلام علی نے پکارا تو ایک اڑتیس چالیس سال کی عورت باہر آئی۔۔۔ نازک ناک نقشے کی دبلی پتلی سی وہ عورت بڑے گھیر کی شلوار پہنے ہوئی تھی۔۔۔ میں نے سوچا غلام علی نے اسے بالکل پنجابی بنا دیا ہے۔۔۔ وہ بے جھجک میرے پاس آ کر بھولے پن سے زمین پر بیٹھ گئی کہ میں بوکھلا گیا۔


’’بھیا۔۔۔ سلام۔‘‘ اس نے مجھے سلام کیا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میری کسی بہن نے مجھے آواز دی ہو۔۔۔


’’تم۔۔۔ تمھیں جمیلہ ہو۔‘‘ میں نے سلام کا جواب دے کر اس سے پوچھا۔


’’ہاں‘‘ وہ ایسے خوش ہوئی جیسے کسی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے ڈرائیور کی بیوی یہ جان کر خوش ہو سکتی ہے کہ صاحب اس کا نام جانتے ہیں۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا تو مجھے اپنے کمینے پن کا احساس ہوا۔ وہ تو ایسے مسرور تھی جیسے کوئی یہ جان کر کھل اٹھے کہ اس کا کوئی ہم وطن ناآشنائی کی دیوار کے پرے رہ کر بھی اسے جانتا ہے۔


’’میرا پرمٹ بنوادو بھیا۔۔۔ میں ضلع ہردوئی جا کر اپنا گھر دیکھوں گی۔ میں نے ان سے کہا تھا لیکن یہ ان کے بس کا نہیں ہے۔ کہتے ہیں میں صاحب سے بات کروں گا۔ اب تو میں خود تم سے بنوا کر رہوں گی اپنا پرمٹ۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ میں اپنا کام تم سے خود کرالوں گی۔۔۔‘‘ وہ ایک سانس میں تنی باتیں کر گئی جیسے شہر کو جاتے ہوئے باپ سے بیٹیاں چھوٹی چھوٹی فرمایش کرتی ہیں۔


میں نے غلام علی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں مجھے وہی اسرار نظر آیا جو رات جیپ میں اس کی آواز میں تھا۔


’’صاحب! اس سے سختی سے منع کر دیجیے کہ اس کا پرمٹ نہیں بن سکتا۔۔۔ میرے چار پانچ سو اٹھ جائیں گے۔ اسے تو بلا فائدے کا شوق ہے بھارت جانے کا۔‘‘


غلام علی کی آنکھیں میری آواز سے بھیک مانگ رہی تھیں اور اس کی بیوی مجسم کشکول بنی میری پاس بیٹھی تھی۔


میں پھر بدحواس ہو گیا۔۔۔ کیا میں اس سے اتنا جھوٹ بول سکوں گا۔۔۔ کیا اتنا بڑا ظلم میری زبان کر سکے گی۔۔۔ کیا میرا ضمیر اس کی اجازت دے گا۔۔۔


غلام علی کی آنکھوں نے پھر اپنے ہاتھ پھیلا دیے۔


’’سنوجمیلہ۔‘‘ میں اس سے مخاطب ہوا۔۔۔‘‘ تمھارا پاسپورٹ نہیں بن پائے گا۔۔۔ تم گھر نہیں جاسکو گی بہنو۔۔۔‘‘


مجھے اپنے ذہن میں شیشے کی کرچیں سی ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ جمیلہ کے معصوم چہرے پر ہزاروں پرچھائیاں آکر گزر گئیں۔


’’کیوں۔۔۔ کیوں بھیا۔۔۔ کیوں نہیں بن سکتا۔ آپ نہیں بنوا سکتے۔ آپ تو سب سے بڑے دروغہ ہیں۔‘‘ وہ تم سے بات کرتے کرتے ایک دم آپ پر آ گئی جیسے میں اس ایک لمحے میں بہت اجنبی ہو گیا ہوں۔


’’ہاں۔۔۔ دیکھ لو، سب سے بڑا دروغہ خود اپنا پرمٹ نہیں بنوا سکتا تو تمھارے لیے کیسے بنوا پائے گا۔‘‘ میں نے یہ کہہ کر جبڑے اتنی سختی سے بھینچ لیے کہ جبڑے ٹیس کرنے لگے۔


’’لیکن وزیرالدین بھائی کی گھر والی نے تو اپنا پرمٹ بنوالیا تھا۔‘‘ وہ بولی جیسے مایوسی کے عالم میں یہی ایک حوالہ اس کا سہارا رہ گیا ہو۔


’’ہاں۔‘‘ میں نے پھر اپنے ضمیری کی چھاتی پر بندوق داغی۔ ’’بنوا تو لیا تھا لیکن غیر قانونی تھا جبھی تو وزیرالدین نے جلا دیا۔‘‘


اس سیدھی سادی عورت نے اپنے کمین او رذلیل بھائی کی گود میں سر رکھ کر اپنے وطن کے حساب میں شاید آخری آنسو بہائے۔


غلام علی یہ دیکھ کر سٹپٹا گیا۔۔۔ وہ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ میں نے اسے روک دیا۔۔۔ اچھا ہے رو دھو کر صبر کر لے۔ روز روز کے رونے سے تو نجات ملے گی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اس کا سر اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھایا۔ اس کے بالوں کو برابر کیا۔ گم سم کھڑے اس کے گول مٹول بچے کی مٹھی میں دس روپے کا نوٹ تھمایا اور باہر نکل آیا۔


بہت دیر کی خاموشی کے بعد میں نے نواب کو یہ سب باتیں بتادیں۔ وہ خاموش بیٹھا سنتا رہا۔۔۔ اور سب کچھ سن کر ایسے مسکرایا کہ انسانوں پر اور انسانوں کے افعال پر اس انداز سے نہیں مسکرایا جاتا۔ ایسا تسمہ تو صرف ناہموار معاشرے کے لیے وقف ہوتا ہے۔ ایسی تلخی کی تاب انسان کہاں سے لا سکتا ہے۔ میں بھی نہیں برداشت کر سکا۔ میں نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ باقی لوگ ناشتے میں مصروف رہے۔ لیکن مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے نواب کی تلخ مسکراہٹ پیچھے سے تیز چھری کی طرح میری پیٹھ میں داخل ہو رہی ہے۔


میں نے سوچا۔۔۔ تم خود کو کون سا بڑا سورما سمجھتے ہو۔ تم اگر میری جگہ ہوتے تو کیا اپنے ماتحت کی پیسہ پیسہ جوڑی ہوئی کمائی کو اس کی بوے ی کے بے ہنگم شوق میں تباہ کرنے کے روادار ہوتے۔۔۔


میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ نواب بالکل خاموش بیٹھا تھا۔ ہر قسم کے جذبے سے اس کا چہرہ عاری تھا۔۔۔ شاید وہ خود بھی یہی سب کچھ سوچ رہا تھا۔


تالاب پر جانے کے لیے جیپیں دوبارہ چل پڑیں۔۔۔ گاؤں کے بہت سے لوگ ہمیں دیکھنے آ گئے تھے۔۔۔ غلام علی نے بہت مدبرانہ انداز میں ہاتھ ہلا ہلا کر گاؤں والوں کو خدا حافظ کیا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ مجھے معمولی آ دمی مت سمجھو۔۔۔ میرے گھر پر سپرنٹنڈنٹ پولیس ناشتہ کرتے ہیں۔۔۔ میں نے اس کے انداز پر مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔۔۔ غلام علی کے گھر کی چھت پر ایک عورت کھڑی تھی۔ ضلع ہردوئی کی ایک لڑکی جو یہاں آ کر بڑے گھیر کی شلوار پہننے لگی تھی۔ اس کے بال بکھر گئے تھے اور دوپٹہ ہوا میں زور زور سے ہل رہا تھا۔


میں نے نواب کو دیکھا، اس نے مجھے دیکھا اور ہم دونوں نے اس پنکھ ٹوٹی مرغابی کو دیکھا۔


پرندے تیرے پر ٹوٹ گئے۔ تو اب واپس برف کے میدانوں میں نہیں جا سکتا۔


خدا حافظ اے معصوم عورت۔۔۔ تو بھی اس سرزمین کو نہیں دیکھ سکے گی، جہاں تیرا شعور بیدار ہوا تھا۔۔۔ جہاں تونے لوگ گیت سنے تھے۔ جہاں تونے ساون کے جھولے جھولے تھے، جہاں تو نے اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ ہنڈ کلیاں پکائی تھیں۔ جہاں مر غی کے ڈربوں میں چھپ چھپ کر تونے آ نکھ مچولیاں کھیلی تھیں۔ جہاں تونے شوخ امنگوں کے رنگ سے رنگے ہوئے ست رنگے دوپٹے اوڑھے تھے۔ جہاں تونے اپنے ننھے سے دل میں نرم نرم جذبوں کو مٹھی میں پکڑ کر بند کر لیا تھا۔ سب بھول جا میری پیاری بہن۔۔۔ وہاں کے نام پر بہائے گئے تیرے آخری آنسو میرے شکاری کوٹ کے دامن میں محفوظ ہیں۔ بس یہ آخری آنسو ہیں۔ اب کوئی آنسو نہ بہے کہ کچھ اور لوگ بھی بے حد اداس ہیں۔ کہیں ان کی اداسی بھی بے قیمت پانی کی طرح آنکھوں سے نہ بہہ جائے۔ تالاب کی سطح پر بھڑکنے سے فائدہ کیا۔۔۔ آڑ میں چھپے شکاری نے تیرے پر کب کے توڑ دیے۔۔۔ اب کیا دھرا ہے۔ میں نے گردن موڑ کر سیٹ سے نکالی۔۔۔


جیپ کچے دگڑے پر دھول اڑاتی بھاگتی رہی۔


’’تم نے شادی کر لی۔۔۔؟ میں یہ پوچھنا تو بھول ہی گیا۔‘‘ نواب کی آواز جیپ کے انجن سے زیادہ پر شور تھی۔ حالانکہ اس نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا تھا۔


ایک انجانے خوف کے باعث میں نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ صرف اس کا ہاتھ دبا کر اثبات میں سر ہلادیا۔


’’بچے کتنے ہیں؟‘‘ اس نے پھر سوال کیا۔


’’تین۔‘‘ میں نے متصرن سا جواب دیا۔


اور اب نواب تم جو پوچھوگے وہ مجھے معلوم ہے۔۔۔ پوچھ لو کوئی بھڑاس نہ رہ جائے تمھارے دل میں۔۔۔ آج ساری حسرتیں پوری کر لو۔۔۔


’’ان کا کوئی خط آیا کبھی؟‘‘ نواب نے پوچھا۔


شاباش میرے دوست۔۔۔ زندہ رہو۔۔۔ میں نے کہا تھا تاکہ ابھی میرے پورے زخم کہاں ہرے ہوئے ہیں سو تم نے وہ آخری زخم بھی کر ید دیا۔۔۔ ’’کس کا خط‘‘ میں نے آنکھیں کھول کر نواب کو یوں دیکھا جیسے میں کچھ جانتا ہی نہیں۔


نواب نے مجھے ایسے دیکھا جیسے سپاہی چور کو دیکھتا ہے۔ وہ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ میں نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کر دیا۔۔۔ کو ں کہ میں چور تھا اس لیے میں نے س سے نظریں نہیں چار کیں۔۔۔ اور آنکھیں بند کر لیں۔ دوپہر کے سورج کی چمک آنکھوں پر براہ راست پڑ رہی تھی اور آنکھوں کے پپوٹوں کی وہ حرارت بہت خوش کن محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ باہر میں نے ابھی دیکھا تھا کہ کہرا بالکل چھٹ گیا تھا اور کھیت بہت اجلے اجلے نظر آ رہے تھے۔۔۔ تالاب دور تھا اور ماضی کے آئینہ خانے کا سب سے رنگین عکس جس کی تمیر میں صرف لفاظی کام نہیں دیتی بلکہ اس تصویر کو مکمل کرنے کے لیے خون جگر کی آمیزش کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ میری محبت کا عکس میرے سامنے چمک رہا تھا۔


پیدا ہونے سے لے کر نبض رکنے تک یہ جذبہ کتنے روپ بدلتا ہے۔ لیکن اس کا ہر رخ خوش گوار ہوتا ہے۔ ماں کے دودھ سے محبت ہو یا باپ کی شفیق گود سے، بھائی کی محبت ہو یا بہن کی چاہت، دوست سے محبت ہو یا محبوبہ سے۔۔۔ اس کا ہر رنگ دل کش ہے۔ اور میری زندگی کی البم کی حسین اور سب سے معصوم تصویر میرے سامنے آ گئی۔


گرمیوں کی ایک تپتی ہوئی دوپہر میں ہوائیں اپنی گود میں انگارے بھرے ہوئے اونچے اونچے درختوں سے سر پٹک رہی ہیں۔ ایک لق و دق مکان کے کچے، سیلے اور ٹھنڈے دالان میں ایک برہمپتر جیسی بپھری اور ہمالیہ جیسی خو د سر جوان لڑکی کھڑی ہے۔۔۔ اور وہیں ایک ستون کے سہارے ایک بے باک لڑکا کھڑا ہے۔ اس نے ابھی ابھی لڑکپن سے دامن چھڑا کر جوانی کے کار زار میں قدم رکھا ہے اور وہ اتنا ہی گستاخ ہے جتنا اس عمر میں ہونا چاہیے۔ ’’تو بھیا معلوم یہ ہوا کہ آپ مجھ سے محبت فرماتے ہیں؟‘‘ اس لڑکی نے مذاق اڑانے والے انداز میں اس سے پوچھا۔


وہ لڑکا خاموش رہا۔۔۔


’’کب سے عشق فرمارہے ہیں؟‘‘


اس نے کو ئی جواب نہیں دیا۔


’’ہوں۔ تمہیں معلوم ہے میں تم سے بڑی ہوں۔‘‘ لڑکی نے کہا۔


’’تو یہ اپنے ہاتھ میں تھوڑے ہی ہے۔۔۔‘‘ لڑکے نے منہ کھولا۔


اس معصوم توجیہہ پر وہ مسکرائی تھی۔


باہر لو کے جھونکے انھیں دیکھ کر چپ چاپ ٹھہر گئے۔


اور معلوم نہیں کیسے اس لڑکی نے جسے مغرور، بددماغ اور خود پرست جیسے الفاظ سے یاد کیا جاتا تھا، جسے یہ فخر حاصل تھا، اگر یہ چیز فخر کے قابل ہے تو، کہ اس کی جوانی کے دامن پر ایک بھی داغ نہیں تھا، آگے بڑھی اور اس لڑکے سے کہا کہ وہ اس کی برہم پتر جیسی جوانی کو بانہوں میں بھر کر اس کے ہمالیہ جیسے سر کو اپنی محبت کے زور سے نیچا کر دے۔ وہ لڑکا آگے بڑھا اور اس نے بچپن، لڑکپن اور شروع جوانی کے اس طویل عرصے میں پہلی بار کسی جوان جسم کے گداز کے لمس کو محسوس کیا اور ان پاک ہونٹوں کو چوم لیا جن کی تقد یس خود اس کے دل میں تھی۔


ایک سال تک دونوں انھیں معصوم جذبوں میں کھیلتے رہے۔


پھر سینتالیس آیا۔۔۔ منہ پھاڑے، دانت نکالے، تقسیم کا حکم نامہ ہاتھ میں لیے۔۔۔ کوہ ندا سے یا اخی یا اخی کی آوازیں آئیں اور جس دن وہ لڑکا سب کچھ چھوڑ کر ایک انجان دیس کو جا رہا تھا اس دن وہ اس لڑکی سے ملا۔۔۔ دل بھی قابو میں تھا، جذبات، بھی قابو میں تھے، صرف قدم بے قابو تھے جو بلا سوچے سمجھے نامعلوم بے نشان منزل کی سمت اٹھنے والے تھے۔


’’تو آپ چل دیے۔‘‘ اس نے پوچھا تھا۔


اس لڑکے کے پاس جواب دینے کو الفاظ تو بہت تھے پر ہمت نہیں تھی۔


’’وہاں جا کر مجنوں فرہاد بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں والدین کہیں شادی کر لینا سمجھے۔‘‘


وہ لڑکا لڑکیوں کی طرح رونے ہی والا تھا کہ اس لڑکی نے مردوں کی طرح اسے دلاسا دیا۔


کھوکھلے دلاسے۔۔۔ کہ تم دوچار سال بعد آنا اور مجھے بیاہ کر لے جانا۔


دونوں جانتے تھے کہ یہ ناممکن ہے۔ لیکن دونوں ایک دوسرے کو اطمینان دلاتے رہے کہ اس کے علاوہ چارہ بھی کیا تھا۔


تو پھر یوں ہوا کہ برف باری ہونے لگی۔ برف کے ذرات آسمان سے برسنے لگے۔ ہوائیں شدت اختیار کر گئیَں۔ موسم ناقبل برداشت ہو گیا۔۔۔ اور پرندوں کا وہ جھنڈ زندہ رہنے کے قابل گرمی حاصل کرنے کے لیے دوسری سرحدوں میں چلا گیا۔۔۔ انڈوں کے خول میں بند اپنی عزیز چیزوں کو برف میں دبا کر، دوبارہ واپس آنے کی امید میں صفیں کی صفیں پرے کے پرے دوسری بستیوں میں پرواز کر گئے۔


اس لڑکی کا اسے کوئی خط نہیں ملا کیوں کہ جس گھرانے کی وہ لڑکی تھی وہاں کا دستور نہیں تھا کہ غیر لڑکوں کو خط لکھے جائیں وہ بھی دوسرے ملک میں۔


پاکستان آنے کے بعد وہ لڑکا اس دریا کے کنارے بیٹھ کر ریت پر ایک عرصے تک محل بناتا رہا جس کا پانی دونوں ملکوں میں بہتا ہے۔ محل جب بن کر تیار ہوتا تو دریا کی تند اور ظالم لہریں اس کے محل کو تباہ کر دیتیں کیوں کہ دریا کا پانی دوسرے ملکوں سے بہہ کر آتا تھا۔۔۔ اگر دوسرے ملک میں اسی دریا کے کنارے پر کوئی اور لڑکا محل بناتا اور لہریں اسے برباد کر دیتیں تو وہ لڑکا بھی یہی سوچتا کہ پانی دوسرے ملک سے بہہ کر آرہا ہے۔


محبت کے محل بنتے بگڑتے رہے لیکن دریا کی روانی نے تو بڑے بڑوں کو پسپا کیا ہے۔ اس لڑکی کیا حققیقت تھی اور پھر ریت تو ریت ہی ہوتی ہے۔


’’کیا سوچنے لگے؟‘‘ نواب کی آواز نے مجھے واپس بلا لیا۔


’’کچھ نہیں۔‘‘ میں نے آنکھیں کھول دیں۔


نواب نے مسکرا کر میرے جھوٹ کو تھپکی دی۔


ہندوستان سے آنے کے بیس سال بعد معلوم ہو سکا تھا کہ بیگم کی شادی کسی شرابی اور دق زدہ آدمی سے کر دی گئی تھی کہ ہمارے ہاں شریف اور ستم رسیدہ خاندانوں میں لڑکیوں کی شادیاں ایسی ہی دھوم دھام سے ہوتی ہیں۔


’’سنو!‘‘ نواب نے مجھے پھر پکارا۔


’’ہوں۔‘‘ میں نے آنکھیں کھول دیں۔


’’بیگم بیوہ ہو چکی ہیں۔ ان کے شوہر کو ٹی بی کا عارضہ تھا اور اس پر شراب۔ تمھیں معلوم ہوا تھا؟‘‘ نواب نے میری سماعت میں زہر بھر دیا۔ میرے کانوں کے قریب ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے تیر سائیں سائیں کر رہے تھے جن کی نوکیں بہت تیز اور چمکتی ہوئی تھیں۔


آنکھیں مکمل کھول کر میں نے باہر دیکھا۔ جیپ تالاب کے قریب پہنچنے ہی والی تھی۔ باہر گیہوں کے کھیتوں میں چھوٹے چھوٹے پودوں پر دھوپ برس رہی تھی۔ دور کے درختوں کی چوٹیوں پر ہوائیں بلاؤں کی طرح چلا چلا کر ناچ رہی تھیں۔


’’اے خدا! آج ماحول پر اتنا دکھ کیوں چھایا ہوا ہے؟‘‘ میں اس سے سوال کر رہا تھا جو عام انسانوں کو کچھ نہیں بتاتا جس سے کچھ پوچھنے کے لیے پیغمبر ہونا ضروری ہوتا ہے۔


’’نواب۔۔۔ بیگم بیوہ ہو گئیں؟‘‘ میں نے نواب سے ایسے پوچھا جیسے اس سے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ بیگم کیوں بیوہ ہوئیں؟


’’تمھیں اب معلوم ہوا ہے۔ انھیں تو بیوہ ہوئے بھی برسوں گزر گئے۔ تو تمھیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہو گا کہ میری غزالہ بھی مر گئی۔۔۔‘‘


اف۔۔۔ خوب چر کے لگا لو آج۔۔۔ یہ خبر ہی کون سی کم تھی کہ بیگم بیوہ ہو گئیں کہ تم نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہرنی کی طرح معصوم اور چنچل تمھاری غزالہ بھی مرگئی۔۔۔ نواب میں تم سے ہر گز یہ نہیں پوچھوں گا کہ غزالہ کیسے ختم ہوئی اور بیگم بیوہ ہوکر کیسے جی رہی ہیں۔۔۔ خدا جانے تمھارے ترکش میں اور کتنے تیر باقی ہوں۔


جیپیں رک گئیں۔ سب سے آخر میں ہم دونوں اترے۔


غلام علی نے قریب آ کر کہا۔


’’صاحب اس بار چڑیا اس کنارے پر ہے اور کچھ بیچ میں پڑی ہے۔ اب آپ سوچ لیں کہ کیسے داؤ لگے؟‘‘


سورج کی تیز کرنیں تالاب پر براہ راست پڑ رہی تھیں۔ اور پرندوں کے خوشنما رنگ چمک اٹھے تھے۔


’’میں ادھر ایکھ کے کنارے پہلی وا لی جہو پر بیٹھوں گا۔ تم نواب ذرا ہٹ کر ان جھاڑیوں کی آڑ پکڑ لو۔ اور سلیم اللہ صاحب آپ اور غلام علی دوسرے کنارے پر جا کر بیٹھے پر فائر کریں۔۔۔ چڑیا اٹھے گی تو لامحالہ ہمارے سروں پر سے جائے گی تبھی داب لیں گے۔۔۔‘‘ یہ ہدایتیں دے کر میں اپنی جگہ پر آگیا۔


غلام علی اور سلیم اللہ اپنے کنارے کی طرف چل پڑے۔ وہ دونوں دھیرے دھیرے باتیں کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔۔۔ میں نے کونے میں ایک جگہ بنالی۔ نواب بندوق میں چمکتے ہوئے نے چ کارتوس لگا کر جھاڑیوں کی طرف بڑھ گیا۔


چڑیا بالکل غافل تھی کیوں کہ اس کنارے سے بہت دور تھی۔ میں نے بندوق تیار کر لی۔


یکایک میرے سر پر سرسراہٹ ہوئی اور سیخ پر کا ایک پرا آگے جاکر پانی میں پر توڑ کر گر پڑا۔۔۔ تھوڑی دیر تک کچھ شور رہا۔۔۔ پانی کی لہریں بنیں اور بگڑیں اور پھر وہی خاموشی اور تالاب کا سکوت۔۔۔


ابھی ابھی جب یہ سیخ پر آ کر پانی میں گرے تو میں نے مسواس کیا، صرف محسوس کیا، کہ ان پرندوں کی آنکھوں میں بھی تو وہی سپنے ہیں جو صبح ان پرندوں کی آنکھوں میں تھے، جن کے پنکھ ٹوٹ گئے تھے۔۔۔ وہی اپنے دیس واپس جانے کے سپنے۔۔۔ وہی شفاف برف چومنے کے سپنے۔۔۔ کتنی دیر اور ہیں یہ خواب ان کی آنکھوں میں۔


تالاب کے ادھر کھیتوں میں کہیں کہیں ایکھ کے پودے غیر معمولی طور سے حرکت کر رہے تھے۔۔۔ غلام علی اور سلیم اللہ فائر کرنے کے لیے کھیتوں میں چھپے ہوئے آہستہ آہستہ پرندوں کی طرف بڑھ رہے ہوں گے۔


میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ کبھی محسوس ہوتا پانی ساکت ہو گیا ہے۔ کبھی لگتا پرندے بے حرکت ہو گئے ہیں۔۔۔ دیر تک پانی پر نظریں جمائے رہنے سے سکوت اور حرکت کا فرق مٹ جاتا ہے۔ سب ایک جیسا ہو جاتا ہے۔ ہاں ہر فرق مٹ جاتا ہے اور آج اس تالاب پر بیٹھے ہوئے مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہ پانی ہی نہیں، کائنات کی ہر چیز ساکت ہو گئی ہے۔۔۔ بالکل بے حرکت ہو گئی ہے۔۔۔ اگر حرکت ہے تو صرف ان سپنوں میں جو ان پرندوں کی گول گول بھولی بھالی آنکھوں میں چمک رہے ہیں۔ اگر زندگی ہے تو صرف اس امید میں کہ ہم واپس گھر جائیں گے۔ اگر گرمی ہے تو صرف اس جذبے میں کہ ہم دوبارہ برف چومیں گے۔ اگر جوش ہے تو صرف اس امنگ میں کہ ہم اپنی چھوڑی ہوئی عزیز چیزیں واپس پائیں گے جو انڈوں کے خول میں بند ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔


نواب تم اس وقت دور بیٹھے ہو، تھوڑی دیر بعد میں تمھیں بتاؤں گا۔ ہاں مجھے ابھی ابھی یہ خیال آیا کہ تمھیں بتاؤں ہم لوگ پنکھ ٹوٹے پرندے ہیں۔ وزیرالدین کی بیوی اور غلام علی کی بیوی کے بھی پنکھ ٹوٹ گئے ہیں اور ہمارے تمھارے پنکھ بھی توڑ دیئے گئے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں بچا کہ وہاں جا کر اپنے ہونٹوں سے شفاف برف چوم سکے۔ نواب احمد ہم ان پرندوں سے بھی زیادہ لاچار اور بے بس ہیں کہ کم از کم وہ اپنے پنکھ ٹوٹ جانے کے بعد ذبح تو کر دیے جاتے ہیں، اور ہم لوگ۔۔۔ ہم لوگ تو لمحہ لمحہ قتل کی جا رہی ہیں۔ ہمیں سسکا سسکا کر تڑپایا جا رہا ہے۔ ہمارا شکار ایک دفعہ میں نہیں ہوتا بلکہ دھیرے دھیرے ہوتا ہے۔ ہم اس تالاب میں صرف پھڑک سکتے ہیں، جان نہیں دے سکتے۔ تھوڑی دیر بعد تمہیں سب کچھ بتاؤں گا۔


اچانک دوسرے کنارے پر فائر ہو اور میں دہل اٹھا۔ محسوس ہوا کہ دھوپ اور تالاب کا پانی بالکل سرخ ہو گئے ہیں۔ پوری فضا بالکل گہری سرخ ہو گئی ہے۔ جانے کتنے تالاب میں پھڑکے، جانے کتنوں کے پنکھ ٹوٹے۔


چڑیا نے اڑان بھری اور چھو ٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ کر پرواز کرنے لگی۔


نیچی اڑان کرتا ہوا ایک پرا میرے سر پر سے گزرا میں نے بندوق اٹھائی تو میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھوں پر خون لگا ہوا ہے۔ میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اتنا چمکتا ہوا خوش رنگ لہو کسی جان دار کا نہیں ہو سکتا۔۔۔ یہ تھکی ہوئی جاگتی آنکھوں کے خوابوں کا خون تھا۔ برف کے میدانوں مٰں ر واپس جانے کی امنگوں کا خون تھا۔ ایک دوسرے کے پروں میں منقار پھرا پھرا کر الفت اور رفاقت کا اظہار کرنے کے جذبوں کا کون تھا۔


خدا جانے کیسے بندوق نیچے جھک گئی۔


پرندے نواب کے سر پر سائیں سائیں کر رہے تھے۔


غلام علی چلا رہا تھا۔۔۔ ہم دونوں سے کہہ رہا تھا۔۔۔ ’’حضور داغو۔۔۔ حضور داغو۔۔۔ اوپر آگئی ہیں اوپر۔۔۔‘‘


میں نے اپنے ہاتھوں جن پر خون چمک رہا تھا، قریب لا کر پوچھا کہ مجھے بتاؤ کہ میں کس سے پوچھوں کہ بیگم اب کیسے جی رہی ہیں اور جی بھی رہی ہیں یا کسی کچی قبرمیں، اپنے ارمانوں کے کفن میں، لپٹی سو رہی ہیں۔ مجھے کیسے معلوم ہو کہ غزالہ کیوں مر گئی۔۔۔ وہ بزرگ اور ماسٹر اب وہاں ہیں یا ان کے شفقس چہرے وقت کی دھول میں اٹ کر کہیں کھو گئے۔۔۔ وہ گھر اب گھر ہے یا کھنڈر ہو گیا۔ جہاں ہم نے تاج محل سے زیادہ حسین محل بنائے تھے۔۔۔ وہاں کے نوعمر لڑکے اب بھی مئی جون میں اپنے کومل بدن دھوپ میں جھلساتے ہیں یا نہیں۔


لیکن ہاتھوں پر اب خون کہاں تھا۔ وہ تو بس اسی وقت جانے کہاں سے آن ٹپکا تھا جب پرندوں پر میں نے بندوق اٹھائی تھی۔


میں نے پرندوں کی ایک صف کو پورب کی طرف دھواں ہوتے دیکھا۔


میں نے ان سے چپکے سے کہا۔۔۔


’’دیکھو پر سلامت تو لے کر جارہے ہو لیکن اتنا کرنا کہ ہندوستان پر سے گزرو تو ان لوگوں کا ماتم کر لینا جو یہاں سے جا کر بے وطن ہو گئے تھے۔۔۔ دیکھو جرمنی کی طرف بھی ایسے ہی قصے ہیں۔ وہاں سے اگر گزرو تو تھوڑے اداس ہو جانا۔۔۔ ہمیں تو تم نے دیکھ ہی لیا۔۔۔ لیکن ہم اکیلے تھوڑے ہی ہیں۔۔۔ وزیرالدین کی بیوی ہے۔ نواب ہے، ہر جگہ تم کو ایسے کتنے ہی شکستہ پر ملیں گے، جہاں کسی کو دیکھنا تو سمجھ لینا کہ یہ بھی برف چومنے کے سپنے دیکھ رہا ہے، بس وہیں تم بھی ذرا دکھی ہو لینا۔۔۔ جاؤ اب پہاڑوں کے پیچھے اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔۔۔ وسیع میدان، نکیلی پتیوں والے دیو قامت خوبصرت درخت اور برف میں دبی ہوئی انڈوں کے خول میں بند تمھاری عزیز چیزیں تمھارا انتظار کر رہی ہیں۔۔۔ الوداع۔۔۔ خدا تمھاری پرواز کا حافظ ہے۔


پرندوں کا آخری پر ابھی آسمان کی وسعتوں میں دھوئیں کی لکیریں بن چکا تھا۔۔۔ تالاب چاندی جیسا شفاف ہو چکا تھا۔۔۔ غلام علی اور سلیم اللہ ہاتھ ہلا ہلا کر کسی بات پر بحث کرتے ہوئے چلے آ رہے تھے۔۔۔ ان کی آوازیں مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح میریے کانوں میں آ رہی تھیں۔


میں ایکھ سے باہر آ گیا۔۔۔ میں نے جوتوں کی کیچڑ جھٹکی، سامنے سے نواب آ رہا تھا۔


’’تم نے فائر کیوں نہیں کیا؟‘‘ اس نے دور سے ہی پوچھا۔


تمام ماحول بے حد پر اسرار ہو گیا۔۔۔ درختوں اور کھیتوں کی سرسراہٹ بھی باکل خاموش ہو گئی۔۔۔ کنارے پر بیٹھا سارس کا جوڑا بھی چپ ہو گیا۔۔۔ پانی کہ شرر شرر بھی بالکل معدوم ہو گئی۔


’’وہ۔۔۔ نواب۔۔۔ پرانے کارتوس تھے۔ دغا دے گئے، سب مس ہو گئے۔۔۔‘‘ میں ایک ساتھ اتنے جھوٹ بول گیا۔


’’لیکن سنو۔‘‘ میں نے اسے مخاطب کیا۔


’’ہوں۔۔۔ کیا ہے۔‘‘ اس نے چور نگاہوں سے مجھے دیکھا۔


’’تم نے فائر کیوں نہیں کیا۔۔۔ ایک آدھ چڑیا تو گراہی لیتے کم از کم۔ بالکل تمھارے سر پر اڑ رہی تھیں۔۔۔‘‘


وہ تھوڑی دیر تک خاموش کھڑا رہا۔۔۔ اتنا خاموش کہ مجھے اس کی خاموشی سے ڈر لگنے لگا۔ پھر وہ میرے بہت قریب آکر ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا۔۔۔


’’میرے ساتھ بھی وہی سب کچھ ہوا تھا جو تمھارے ساتھ پیش آیا۔‘‘


ہم دونوں کی بندوقوں نے ایک ساتھ چار فائر کیے۔۔۔ کنارے بیٹھا سارس کا جوڑا اڑ گیا۔۔۔ غلام علی اور سلیم اللہ چونک پڑے۔۔۔ غلام علی بلا سوچے سمجھے روتا چلاتا ہماری طرف بھاگا۔۔۔ حیران کھڑے نواب کے ڈرائیور نے ہمارے ہاتھوں سے بندوقیں سنبھال لیں۔


میں اور نواب ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، دیر تک ایک دوسرے کو سمجھتے رہے۔ اور پھر معلوم نہیں کیسے ہم دونوں نے ایک ہی فیصلہ کیا۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر خاموش ہو گئے۔ اور اتنی مشکل سے اپنے پہ ضبط کیا کہ بس مزہ آ گیا۔۔۔ ہم پانچوں خاموش تھے۔۔۔ ہوائیں بہت تیز ہو گئی تھیں۔ اور تالاب کا پانی کناروں سے چھلک آیا تھا۔