جنرل نالج سے باہر کا سوال

گول چبوترے پرکھڑے ہوکر چاروں راستےصاف نظرآتے ہیں، جن پر راہ گیر سواریاں اورخوانچے والے چلتے رہتے ہیں۔ چبوترے پرجو بوڑھا آدمی لیٹا ہے، اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹےہیں۔ کہیں کہیں پیوند بھی لگے ہیں۔ اس کی داڑھی بےتریب ہے اورچہرے پرلاتعداد شکنیں ہیں۔ آنکھوں کی روشنی مدھم ہوچکی ہے۔ وہ راستے پرچلنے والے ہرفرد کوبہت حسرت سے دیکھتاہے۔ جب کوئی خوش خوش اس کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ دور تک اوردیر تک اسے دیکھتا رہتا ہے۔
کسی طرف سے ایک دس گیارہ برس کی بچی آئی۔ وہ اسکول کی پوشاک پہنے ہوئے ہے، بستہ کندھے پرلٹکا ہے۔ ناشتہ کاڈبہ ہاتھ میں دباہے۔ لڑکی کے بال سنہری ہیں۔ چہرہ گلابی ہے، اورآنکھوں میں ایک سادہ سی چمک ہے۔ بے فکری ، خوشحالی اور بچپن جب ایک جگہ جمع ہو جائیں توآنکھوں میں ایسی ہی چمک پیدا ہو جاتی ہے۔
اسے آتے دیکھ کر بوڑھے کی آنکھو ں میں کچھ چمکا۔ جب وہ پاس سے گزری تو بوڑھے نے ہاتھ بڑھا کر اس کے پیرچھوئے۔ بچی جھجک کرکھڑی ہوگئی۔ ایک لمحہ تک بوڑھے کودیکھتی رہی۔پھر اس کی آنکھوں میں خوف چمکا۔گھرکی نصیحتیں ذہن میں کلبلائیں، لیکن بوڑھے کے چہرے پر اس نے جانے کیا دیکھا کہ آنکھوں کاخوف مدھم پڑگیا اور بھولا بھالا چہرہ دردمندی کے جذبے سے سرشار ہوگیا۔ اس نے بہت اپنائیت سے پوچھا۔
’’کیا بات ہے بابا۔ بھوک لگی ہے؟‘‘
بوڑھا دھیمے سے مسکرایا۔
’’ہاں۔ لیکن میں نے تمہیں اس لیے نہیں روکا۔‘‘
لڑکی کی آنکھوں میں حیرت جاگی، اس نے بوڑھے کاہاتھ اپنے پیروں پر سے آہستگی کے ساتھ ہٹایا اورچبوترے پراس کے پاس بیٹھ کرپوچھا، ’’میرے پاس پچاس کاسکہ ہے۔ تم لوگے؟ تمہیں ضرورت ہے؟‘‘
’’ہاں ضرورت ہے، لیکن میں نے تمہیں اس لیے نہیں روکا۔‘‘
لڑکی کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’پھر تم نے مجھے کاہے کو روکا بابا؟‘‘
بوڑھے نے بہت نخیف آواز میں اس سے کہا، ’’منی! بڑا احسان ہوگا اگر تم میرا ایک کام کر دو۔‘‘
بچی نے اپنا بستہ اتارکر چبوترے پر رکھا اور بوڑھے کے قریب کھسک کربہت اپنے پن کے ساتھ کہا، ’’بتاؤ کیا کام ہے تمہارا۔ میرے کرنے کا ہوگا تو میں کردوں گی۔ نہیں تو پاپا سے کہہ کرکرادوں گی۔ وہ بہت اچھے ہیں۔ سب کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اس دفعہ سردیوں میں انہوں نے پڑوس کے گھر میں دوکمبل دیے تھے۔ جمیلہ کی اماں اور اس کے بھائی کوبہت سردی لگتی تھی۔‘‘ بوڑھے نے یہ سب باتیں بہت لاتعلقی سے سنیں اور کہا، ’’تم میراایک کام کر دو۔ مجھے ایک بات بتادو۔‘‘
’’کیا بات ہے۔ پوچھو۔ معلوم ہے جنرل نالج میں سب سے زیادہ نمبر میرے آئےہیں کلاس میں۔‘‘
’’کس چیز میں منی ؟‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ ایک چیزہوتی ہے۔ مطلب ایک سجبیکٹ ہوتا ہے۔ اس میں ساری باتیں آجاتی ہیں۔ جیسے کون سا پہاڑ سب سے اونچا ہے؟ کون سی ندی سب سے بڑی ہے اور بہت ساری باتیں۔ تم مجھ سے کوئی بھی سوال پوچھ کر دیکھ لو مگرجلدی سے پوچھ لو۔ دیر ہوجائے گی توممی ڈانٹیں گی اورتمہارے پاس بیٹھا دیکھ لیا تو پاپا تو پٹائی ہی کردیں گے۔ اب جلدی سے پوچھ لو۔‘‘
’’منی۔‘‘ بوڑھے نے نیم درازہوکر بہت رازداری کے لہجے میں قریب آکر، اتنے قریب کہ بچی نے اس کے چہرے کی ساری شکنیں گن لیں، کہا، ’’مجھے یہ بتادو کہ میری عمر کتنی ہے اورمیں کب مروں گا؟‘‘
بچی کا ہاتھ بستہ پرجہاں رکھا تھا وہیں رکھا رہ گیا۔ اس کی نگاہیں بوڑھے کےچہرے پرجم کر رہ گئیں۔ پھر اچانک وہ کھلکھلا کر ہنسی، ’’واہ، یہ ہمیں کیا معلوم۔ یہ تو تمہارے ابا کومعلوم ہوگا کہ تمہاری کتنی عمر ہے۔ اور تم کب مروگے یہ اللہ میاں کو معلوم ہے۔‘‘
کئی راہ گیر ان کے پاس آکر جمع ہوگیے۔ بوڑھے نے ان کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھا اور کہا، ’’کوئی مجھے بتادے کہ میری عمرکتنی ہے اورمیں کب مروں گا۔ یہ بچی نہیں بتا پا رہی۔ تم بتا دو بیٹے۔‘‘ اس نے ایک نوعمر لڑکے سے کہا جس کےہاتھوں میں کرکٹ کا بلا تھا۔ وہ لڑکا آگے بڑھا، اس کے چہرے پرذہانت جگ مگ جگ مگ کر رہی تھی۔
’’بابا۔ جب آپ پیدا ہوئے۔۔۔ نہیں نہیں ۔جب آپ چھوٹے تھے، تب کی کوئی بات یاد ہے؟ کوئی بہت ہی خاص بات اگر آپ بتادیں توہم آپ کی عمر بتا دیں گے۔‘‘
’’ہاں مجھے یاد ہے۔ اس وقت سب لوگ لڑرہے تھے۔ کچھ لوگ ہارگیے تھے۔‘‘ بوڑھے نے سوچ کر کہا۔
’’تو آپ پہلی جنگ عظیم کے وقت پیدا ہوئے ہوں گے۔ مگر آپ کی عمرتو سو سال سے کم معلوم نہیں ہوتی۔ آپ شاید کسی اورجنگ کی بات کررہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے حساب سے تو آپ ساٹھ پینسٹھ سال کے ہوں گے صرف۔‘‘ لڑکے نے اپنا بلا چبوترے پررکھ دیا اور وہیں بیٹھ گیا۔
’’نہیں بیٹے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’پہلی جنگ عظیم توکل کی بات ہے۔‘‘
بھیڑمیں سے ایک جوان شخص آگے نکلا اور حساب لگاکر بتایا، ’’آپ کی عمر تقریباً ایک سوپچیس سال ہے1857ء کے واقعہ کو لگ بھگ اتنا ہی وقت بیت چکا ہے۔‘‘
بوڑھے کے مٹیالے سے ہونٹ آہستہ سے کھلے۔ اس سے کچھ بولا نہیں گیا۔ پھر اس نے بہت دقت کے ساتھ کہا۔
’’1857ء کی جنگ توابھی کا واقعہ ہے۔‘‘
بھیڑمیں ایک سنسنی سی پھیل گئی۔ لیکن بوڑھے کے چہرے پر پھیلی ہوئی سنجیدگی نے سب کومجبور کیاکہ کوئی اس پرشک نہ کرے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اتنے میں بچی نے تاریخ کی کتاب کا ایک سبق یاد کیا اوراچھل کربولی۔
’’تم پورے ۲۲۳سال کے ہو۔ پانی پت کی تیسری لڑائی 1741 میں ہوئی تھی۔‘‘ بوڑھے نے اپنا سرانکار میں ہلایا۔ بھیڑمیں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ شام بڑھ رہی تھی اورساے پھیلنے لگے تھے۔ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سب نے اپنی اپنی معلومات کوکھنگالا۔ ایک ۳۵۔۴۰ برس کے آدمی نے بڑھ کرکہا، ’’با با ، آپ کی عمر 428برس ہے۔ اکبرنے ہیمو کو پانی پت کی دوسری جنگ میں 1556 میں ہرایا تھا۔‘‘
بوڑھے نے بہت مایوسی کے ساتھ اپنا سرنفی میں ہلایا۔ لوگ جنگوں کو یاد کرتے رہے اور حساب لگاتے رہے اوربوڑھے کواس کی عمر بتاتے رہے۔ اور وہ اپناسرنفی میں ہلاتا رہا۔ اتنے میں بھیڑ کو چیرتا ہوا بچی کو ڈھونڈتا ہوا اس کا باپ آگیا۔ اس نے بچی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا۔ بچی خوف زدہ نظرآرہی تھی، لیکن ہمت کرکے اس نے اپنے باپ سے کہا ’’پاپا ، ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ان کے سوال کا جواب دیں گے ورنہ اپنے پاپا سے کہیں گے۔ اب آپ آگیے ہیں۔ آپ ہی بتا دیجئے کہ ان کی عمر کیا ہوگی اوریہ کب مریں گے ؟‘‘
بچی کے شفیق باپ نے بچی کاہاتھ چھوڑا۔ اب تک جوبیتا تھا ، وہ لوگوں سے سنا اور بوڑھے بابا کوغور سے دیکھ کرکچھ سوچا اورپھر بوڑھے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ تب بوڑھے نے پیوند لگے لبادے سے اپنے گھٹنے چھپائے۔ اتنے میں بھیڑ کے اندر سے ایک شخص نہایت اعتماد کے ساتھ باہرنکلا اوربولا،’’ہونہ ہویہ آدمی سکندراعظم کے وقت میں پیدا ہوا تھا۔‘‘
اس دفعہ بوڑھے سے پہلے بچی کے باپ نے نفی میں سر ہلایا اور دوزانو ہوکر بوڑھے کے پاس بیٹھ گیا۔ اوپر سے نیچے تک بوڑھے کو دیرتک دیکھا اورپھر سرآگے کرکے اعتماد کے ساتھ آہستگی کے لہجے میں بوڑھے سے مخاطب ہو کرکہا، ’’بابا میں تمہاری عمربتادوں اور یہ بتادوں کہ تم کب مروگے؟‘‘
بھیڑمیں سب کے چہرے چمکنے لگے۔ بچی کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ سب بہت اشتیاق کے ساتھ بچی کے باپ کودیکھنے لگے۔ بچی کے باپ نے بہت محبت سے بوڑھے کے گھٹنوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ کپڑوں پر نہیں بوڑھے کے ننگے گھٹنوں پرہیں۔ تب اس نے بھیڑ کے افراد کو فرداً فرداً دیکھا، چوراہے کو دیکھا، چاروں سمتوں میں جاتے ہوئے راستوں کو دیکھا، ہر طرف پھیلی ہوئی آبادی کو دیکھا اورسفاک آسمان کو دیکھا۔
’’با با۔‘‘ بچی کے باپ نے بہت واضح الفاظ میں کہنا شروع کیا، ’’بابا! تم ہمیشہ سے ہواوراس دنیا میں کبھی نہیں مرپاؤگے۔‘‘
ننھی بچی، نوعمرلڑکا، جوان آدمی اوربھیڑ کا ہرفرد حیران ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اس بار بوڑھے کا سراثبات میں ہلاتھا۔