لاہور ہائی کورٹ کا بجلی کے بلوں پر الگ سے لاگو ایندھن کی قیمتیں منہا کرنے کا فیصلہ

حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی سے ستائی عوام کے لیے لاہور ہائی کورٹ کی راول پنڈی رجسٹری کے  جسٹس جواد حسن  کا بڑا فیصلہ۔ جسٹس صاحب نے بجلی کے بلوں پر سے فیول  پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر الگ سے ایندھن کی قیمتیں وصولنے سے حکومت کو مکمل طور پر روک دیا۔

 لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ  صارفین کی طرف سے ایڈوکیٹ چوہدری رضوان کی درخواست پر دیا گیا۔  فیصلے میں جسٹس  جواد نے حکومت کو حکم دیا کے وہ فیول پرائس  ایڈجسٹمنٹ کی  مد میں آسانی صرف دو سو یونٹ  تک کے  صارفین کو نہ دے بلکہ تمام  صارفین کے لیے یہ پالیسی اختیار کرے۔ یاد رہے لاہور ہائی کورٹ صارفین کو  بنا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے اگست کے بل جمع کروانے کا عبوری فیصلہ  چھے روز پہلے ہی دے چکی ہے۔ اس عبوری فیصلے کی سماعت پر عدالت نےمرکزی حکومت، ایف بی آر اور لیسکو کو نوٹس دیتے ہوئے چودہ ستمبر کو بلوں پر الگ سے ایندھن کی قیمتیں لاگو کرنے کا جواب طلب کیا ہوا ہے۔

بلوں پر  فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ لاگو کرنے کا حکومتی موقف:

بجلی کے بلوں پر تمام شور اگست میں صارفین کو بھیجے گئے ہوش ربا جولائی کے بلوں پر پڑا ہے۔ وفاقی وزیر غلام دستگیر نے بلوں میں اضافے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جو اگست میں بلبھیجے ہیں یہ جولائی کے ہیں۔ لیکن ان میں جو الگ سے ایندھن کی قیمتیں وصولی جا رہی ہیں وہ جون میں استعمال ہونے والی بجلی کی ہیں۔ اب چونکہ عمومی طور پر صارفین نے جولائی کی نسبتجون میں بجلی زیادہ استعمال کی تھی تو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اتنے زیادہ ہیں۔ اب یہ وضاحت کتنی معقول ہے اس کا فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی  اسی قسم کی وضاحت  کر کے مدعا پچھلی حکومت  پر ڈالا تھا۔  ان کا کہنا تھا جو ایندھن کی قیمتیں اب وصولی جا رہی ہیں یہ ایندھن کہیں مارچ اپریل میں منگوایا گیا تھا۔

خیر عدالت نے کسی حکومتی وضاحت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تمام صارفین کو  ریلیف دینے کا فیصلہ دیا ہے۔ اپنے اقدام کے اثرات سے غریب ترین آدمی کو بچانے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے دو سو یونٹ تک کے صارفین کو ایندھن کی قیمتوں سے مستثنیٰ کیا تھا۔ لیکن عدالت عالیہ نے وزیر اعظم کے ریلیف کو ناکافی جانتے ہوئے  دائرہ تمام  صارفین تک پھیلا دیا ہے۔

آخر حکومتی نااہلیوں کی قیمت عوام کیوں ادا کریں؟

یہ مہنگا ایندھن چاہے اس حکومت نے خریدا ہو یا پچھلی نے۔ سوال یہ ہے کہ کرونا کے دنوں میں جب گیس اور تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں گری ہوئی تھیں تب قطر اور دیگر سپلائر سے دس پندرہ سالہ معاہدے کیوں نہ کیے گئے؟ کیوں سر  پر  پڑتی ہے تو عالمی مارکیٹ میں بھاگا جاتا ہے اور مہنگے داموں ایندھن  بمجبوری خریدا جاتا ہے؟  نااہلیاں اور سستیاں آپ کی ہیں اور قیمتیں ہم ادا کریں۔ کیوں، آخر کیوں؟

متعلقہ عنوانات