لگی تھی عمر پرندوں کو گھر بناتے ہوئے
لگی تھی عمر پرندوں کو گھر بناتے ہوئے
کسی نے کیوں نہیں سوچا شجر گراتے ہوئے
یہ زندگی تھی جو دھتکارتی رہی مجھ کو
میں بات کرتا رہا اس سے مسکراتے ہوئے
بدن تھا چور مرا ہجر کی مشقت سے
سو نیند آئی مجھے درد کو سلاتے ہوئے
کوئی تو اس پہ قیامت گزر گئی ہوگی
کہ آپ بیتی وہ رونے لگا سناتے ہوئے
عجیب نیند میں تھا خواب گاہ ہستی کی
میں اس جہاں سے ترے اس جہاں میں جاتے ہوئے
کہانی گو کے ہر اک لفظ میں تھی جادوگری
رلا دیا تھا ہر اک شخص کو ہنساتے ہوئے
نہ میری چشم تمنا میں جچ سکی دنیا
پلٹ کے دیکھتا کیسے اسے میں جاتے ہوئے
میں جل اٹھا تھا ترے ہی خیال کی لو سے
تجھے خیال نہ آیا مجھے بجھاتے ہوئے