لاؤں میں کہاں سے بھلا انداز بیاں اور

لاؤں میں کہاں سے بھلا انداز بیاں اور
منصف کی زباں اور ہے اور میری زباں اور


یہ درد سمجھتا نہیں آداب زمانہ
کوشش ہو چھپانے کی تو ہوتا ہے عیاں اور


قسمت کا لکھا مان لے تھوڑے سے زیاں کو
جائے گا عدالت میں تو پائے گا زیاں اور


تفصیل بیاں کرتا ہے کیوں اپنے عمل کی
اس طرح تو ہر شخص پہ گزرے گا گماں اور


منزل پہ پہنچ کر نہ ہوا دل جو مرا خوش
پوچھی جو وجہ اس نے کہا اور اماں اور


تم سے بھی کہاں مجھ کو سماعت کی توقع
مجھ میں بھی کہاں باقی ہے اب تاب فغاں اور


یہ ظلم کے شعلے ہیں فقط خوں سے بجھیں گے
اشکوں سے بجھاؤ گے تو اٹھے گا دھواں اور