لاکھ چھپتے پھریں حرفوں میں سمٹتے جائیں

لاکھ چھپتے پھریں حرفوں میں سمٹتے جائیں
شعر افتاد ہیں اڑ اڑ کے لپٹتے جائیں


حسرت شوق نے اس درجہ اڑائی رنگت
اب جو منظر ہمیں دیکھیں تو ٹھٹکتے جائیں


دستک غم نے مری نیند ابھی توڑی ہے
کرچیاں چنتے ہوئے خواب سسکتے جائیں


بے گھڑی رسم عقیدت سی نبھائی ہم نے
گھر کو جائیں بھی تو سو بار بھٹکتے جائیں


شعلۂ دل تو جلائے گا ہمیں یوں کب تک
تیری مرضی ہے سر حشر دہکتے جائیں