موسم کا حال آنکھ کی کھڑکی بتائے گی
موسم کا حال آنکھ کی کھڑکی بتائے گی
دن ڈھل گیا ہے شام کی سرخی بتائے گی
مرجھا گئے جو شاخ اجل پر کھلے گلاب
رس اڑ گیا ہے سانس کی تتلی بتائے گی
آنکھوں پہ اعتبار نہ کر فاصلہ تو دیکھ
دریا کے پار کیا ہے یہ کشتی بتائے گی
دیوار پر شبیہ بنائیں گی انگلیاں
کم روشنی فریب کو پنچھی بتائے گی
لا حاصلی کی سان پہ ازلوں کے ماجرے
صدیوں کی داستان بھی چٹکی بتائے گی
اپنی ہنسی کو حال کا پیمانہ کیجئے
جتنی خوشی ہے ناپ کے اتنی بتائے گی