لاکھ چہرے تھے مگر تجھ سا کہیں پر بھی نہ تھا

لاکھ چہرے تھے مگر تجھ سا کہیں پر بھی نہ تھا
تھا نہ بہتر تجھ کو کھو کر حال بد تر بھی نہ تھا


اتنا کر دیتا کہ تو کوئی مجھے الزام دے
دی سزا پر جرم کوئی تو مرے سر بھی نہ تھا


لڑکھڑائے پیر پھر کیوں کیوں نظر کھو سی گئی
صرف تیری یاد تھی ہاتھوں میں ساغر بھی نہ تھا


ہو گیا جتنا کہ تنہا دوستوں کی بھیڑ میں
دشت و ویراں میں اکیلا خود کو پا کر بھی نہ تھا


سچ ہے یوں تو غم بہت تھے قید کر پائے نہیں
آسماں سر پہ کھلا تھا دل یہ بے پر بھی نہ تھا


تھی نہ کوئی ایسی منزل جو مجھے آواز دے
مجھ کو رکھے باندھ کر ایسا مرا گھر بھی نہ تھا