کہیں نہیں ہیں آہٹیں نہ تیرا انتظار ہے
کہیں نہیں ہیں آہٹیں نہ تیرا انتظار ہے
مگر وہیں ہے اک خلش جو دل میں برقرار ہے
نہ تہمتیں نہ بغض ہے نہ ہی گلہ بھی ہے کوئی
مگر سوال لاکھ ہیں بہت ہی انتشار ہے
نہ مل سکے قریب سے نہ ہی جدا ہوئے کبھی
ہر ایک چیز ناتمام غم ہے یا خمار ہے
دعا نہیں قبول کی تو رحمتیں نوازشیں
ابھی پرانی نعمتوں سے قلب تار تار ہے
ملا بھی اور ملا نہیں تو ایک خواب سا ملا
نہ چھو سکی نہ کہہ سکی جو حال آشکار ہے
نشہ نہیں جنوں نہیں نہ ہی کوئی فتور ہے
مگر میں اس کو کیا کہوں کہ سر پہ جو سوار ہے
ہے شام کا وہی پہر وہی جگہ وہی ڈگر
بغیر ایک شخص کے کوئی الگ دیار ہے