کیوں تیرگی سی چھائی چراغوں کے درمیاں
کیوں تیرگی سی چھائی چراغوں کے درمیاں
کیا حسن چھپ گیا ہے نقابوں کے درمیاں
ناسور بن گیا کئی سالوں کے درمیاں
اک زخم جانے کیسا ہے چھالوں کے درمیاں
وہ نیند میں بھی آنکھ سے اوجھل نہ ہو جناب
اس کو بسا لیا ہے نگاہوں کے درمیاں
شدت ہے پیاس میں تو سروور کے جا قریب
کب تشنگی مٹی ہے سرابوں کے درمیاں
اولاد پہ اگر جو مصیبت نہ ہوتی آج
کیوں ماں کا ہاتھ رکتا نوالوں کے درمیاں
یوں ہی جناب ہم کو یہ عہدہ نہیں نصیب
سالوں ہے سر کھپایا کتابوں کے درمیاں
جو غور سے پڑھو گے سوالوں کو بار بار
مل جائے گا جواب سوالوں کے درمیاں
ساحل کو توڑنے کی حماقت کیے بغیر
لہریں اچھل رہی ہیں کناروں کے درمیاں
ملتا نہیں ہے کچھ بھی تردد کیے بغیر
کانٹے بھرے پڑے ہیں گلابوں کے درمیاں
شاید مرے صنم نے کیا یاد مجھ کو آج
ہچکی تبھی ہے آئی نوالوں کے درمیاں