کیوں خلوت غم میں رہتے ہو کیوں گوشہ نشیں بے کار ہوئے

کیوں خلوت غم میں رہتے ہو کیوں گوشہ نشیں بے کار ہوئے
آخر تمہیں صدمہ کیا پہنچا کیا سوچ کے خود آزار ہوئے


کیوں صاف کشادہ رستوں پر تم ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہو
کیوں تیرہ و تار سی گلیوں میں تم ان کے خوش رفتار ہوئے


کیا اٹھتے بیٹھتے سوچتے ہو کیا لکھتے پڑھتے رہتے ہو
اس عمر میں یہ بے کیفی کیوں کس واسطے نیک اطوار ہوئے


کیوں ایسے سفر پر نکلے ہو منزل نہیں جس کی کوئی بھی
کیوں ایسی راہ پہ چلتے ہو سائے بھی جہاں دیوار ہوئے


کیوں ترک علائق کو تم نے سمجھا ہے علاج غم آخر
دیکھو تو ولی صوفی بھی یہاں کس ٹھاٹ کے دنیا دار ہوئے


اس کلبۂ احزاں سے ہرگز ابھرے گا نہ سورج کوئی بھی
کب خاک ستارہ بار ہوئی کب سائے سحر آثار ہوئے


کب صبح کے نالے کام آئے کیا گریۂ نیم شبی سے ملا
اس قریۂ خواب فروشاں میں تم کس کے لیے بیدار ہوئے