کیوں آشنائے غم دل وحشت اثر نہیں

کیوں آشنائے غم دل وحشت اثر نہیں
مانوس التفات وہ ظالم اگر نہیں


میں ہوں تلاش راہ محبت ہے دشت ہے
سایہ نہیں نشان نہیں ہم سفر نہیں


پھر راہ رو سے لیتا ہوں منزل کا کچھ سراغ
سب راہبر ہیں میرے کوئی راہبر نہیں


پھر عندلیب زار نے تنکے اٹھا لئے
شاید چمن اجڑنے کی اس کو خبر نہیں


میں اور جام و نغمہ و مطرب سے واسطہ
خوش ہوں کہ میرا بزم طرب میں گزر نہیں


کیوں جل نہ جائے تاب رخ یار دیکھ کر
دل ہے یہ کوئی چشم حقیقت نگر نہیں


اوراق دو جہاں پہ جو تحریر ہو سکے
اتنا مرا فسانۂ غم مختصر نہیں


ضبط جنوں نے ڈھائی ہیں دل کی عمارتیں
اب اس دیار میں کوئی دیوار و در نہیں


دل کو سپرد کرتے ہیں اپنا پیام جاں
یہ معتبر نہیں تو کوئی معتبر نہیں


پیوست ہوں نہ جس میں زمانے کے دل جگرؔ
کچھ اور ہے وہ آپ کا تیر نظر نہیں


کیسی دعا کہاں کا اثر کس کا مدعا
کچھ آگ کے سوا مرے دل میں جگرؔ نہیں