کیوں زمانے کا ہم گلہ نہ کریں

کیوں زمانے کا ہم گلہ نہ کریں
کچھ بھی ہو کوئی التجا نہ کریں


حکم حاکم عجیب ہے یارو
سب ستم سہہ لیں اور گلہ نہ کریں


صبر و تسلیم تو سرشت میں ہے
غیر ممکن ہے ہم وفا نہ کریں


کس طرح اس کو بھول سکتے ہیں
اپنے مولا سے کیا دعا نہ کریں


لطف و احساں کی حد و بست کہاں
عرض کیوں حرف مدعا نہ کریں


کاسۂ دل بدست پر امید
منقطع رشتۂ وفا نہ کریں


خون ناحق تو رائیگاں نہ گیا
کیوں بھلا ذکر کربلا نہ کریں


جرم نا کردہ کی سزا صادقؔ
پائیں معصوم یہ خطا نہ کریں