کیوں نہ اے دل جفا کرے کوئی
کیوں نہ اے دل جفا کرے کوئی
رسم الفت ہے کیا کرے کوئی
لاکھ نالہ کیا کرے کوئی
نہیں ممکن رہا کرے کوئی
جب نہ باقی ہو قوت پرواز
کیا ستم ہے رہا کرے کوئی
مرض عشق کا علاج نہیں
کیا دل مبتلا کرے کوئی
دیکھ لے تجھ کو پھر کہاں ممکن
خواہش ما سوا کرے کوئی
ضبط غم کا ہمیں بھی دعویٰ ہے
ہے جو ظالم ہوا کرے کوئی
درد الفت ہے زندگی میری
یہ سمجھ کر دوا کرے کوئی
ذات واحد ہے پیکر انصاف
اس کی تعریف کیا کرے کوئی
جلوہ فرما کہاں نہیں وہ سلیمؔ
دیدۂ دل تو وا کرے کوئی