ایسا ہے کہاں کوئی حاصل ہے سکوں جس کو (ردیف .. ے)
ایسا ہے کہاں کوئی حاصل ہے سکوں جس کو
لیکن وہ جسے تیرا دیدار میسر ہے
سب کی ہے نظر ان پر مرعوب ہیں سب ان سے
امید ہے اللہ سے اللہ کا جنہیں ڈر ہے
کیا خوف جہنم کا فردوس کی لالچ کیا
کیا اہل محبت کا انداز ہے تیور ہے
ہونٹوں پہ خموشی ہے نظریں ہیں جھکی پھر بھی
اظہار تمنا کا الزام مرے سر ہے
ہے پاس رضا مجھ کو پھر عرض کروں کیوں کر
معلوم سلیمؔ اس کو حال دل مضطر ہے