ہو کاش یہ شعور کہ ہیں مہماں کہیں
ہو کاش یہ شعور کہ ہیں مہماں کہیں
احساس میزباں پہ نہ ہم ہوں گراں کہیں
یہ بھی خیال رکھتے ہیں کچھ ذاکران حق
کہتی نہ ہو کچھ اور عمل کی زباں کہیں
ہم آشنائے ذات وہ بیگانۂ صفات
یہ بات دوستی کے ہے شایان شاں کہیں
عرفان حق کے حق میں ملی ہے خرد ہمیں
دولت یہ بے پناہ نہ ہو رائیگاں کہیں
چشم طلب میں کوئی سمائے محال یہ
حسن رضائے یار نظر آئے ہاں کہیں
راہ وفا میں اس لئے پھرتا ہوں سر بکف
مل جائے کب وہ دشمن آرام جاں کہیں
تیری طلب نہیں ہے مری جاں کہ جا سکے
لیتا ہے اس طرح بھی کوئی امتحاں کہیں
ہم رہروان شوق ہیں منزل کی فکر کیا
لے جائیں نقش پا ترے ہم کو جہاں کہیں
کرتے نہیں کسی پہ عیاں ہم کہ اے سلیمؔ
درمان زندگی ہو یہ درد نہاں کہیں