کیا لطف کہ وہ ظلم بھی جاری نہیں رکھتے

کیا لطف کہ وہ ظلم بھی جاری نہیں رکھتے
کیا دوست ہیں کچھ لاج ہماری نہیں رکھتے


ہم لپٹے ہوئے گھر سے بھی رہتے نہیں لیکن
ہجرت کا کوئی خوف بھی طاری نہیں رکھتے


اعجاز تخیل سے پہنچتے ہیں سر عرش
ہم اہل ہنر کوئی سواری نہیں رکھتے


رہنے پہ نہیں تم ہی جو تیار تو جاؤ
ہم کوئی نشانی بھی تمہاری نہیں رکھتے


یہ یاد رہے آن پہ مر مٹتے ہیں ہم لوگ
مت بھولنا ہم جان بھی پیاری نہیں رکھتے


کیوں بوجھ پروں کا لیے پھرتے ہیں نہ جانے
ایازؔ پرندے جو اٹاری نہیں رکھتے