غموں میں ڈھال گیا لوٹ کر نہیں آتا
غموں میں ڈھال گیا لوٹ کر نہیں آتا
جو پچھلے سال گیا لوٹ کر نہیں آیا
بچھڑ گیا ہے وہ خوشیاں سمیٹ کر اور غم
مجھے سنبھال گیا لوٹ کر نہیں آیا
عجب طلسم ہے اس کی حسین آنکھوں میں
ادھر خیال گیا لوٹ کر نہیں آیا
میں خود بھی سوچ میں گم ہوں کہ تیرے آنے سے
کدھر ملال گیا لوٹ کر نہیں آیا
عجیب شخص تھا کھنچ کر صلیب وقت پہ وہ
ہمیں اجال گیا لوٹ کر نہیں آیا
کٹا وہ شہر سے پھر جب تری گلی سے کٹا
شکستہ حال گیا لوٹ کر نہیں آیا
ستم ظریف رواجوں کی اوٹ میں اے ایازؔ
مرا ہلال گیا لوٹ کر نہیں آیا