اے کاش کہ ٹوٹے ترا پندار کسی دن

اے کاش کہ ٹوٹے ترا پندار کسی دن
کر لے تو مرے پیار کا اقرار کسی دن


یہ جھانکنا چھپ چھپ کے ہمیشہ نہ رہے گا
گر جائے گی یہ بیچ کی دیوار کسی دن


حالات کے محبس سے نکالو انہیں ورنہ
مر جائیں گے گھٹ کر یہاں خوددار کسی دن


سرشار کبھی میں بھی بہت تھا اسے مل کر
پچھتائے گا تو بھی اے مرے یار کسی دن


سنتے ہیں کہ اس پار بڑی سبز رتیں ہیں
کیوں ہم بھی نہ ایازؔ چلیں پار کسی دن