کیا آسماں سے ربط یقیں محو خواب ہے
کیا آسماں سے ربط یقیں محو خواب ہے
سوئی ہوئی ہے خاک زمیں محو خواب ہے
ہے نیند میں اطاعت و عرفاں کا سلسلہ
سجدوں کے ساتھ ساتھ جبیں محو خواب ہے
سوئے ہوئے تو سوئے ہیں دیکھو مگر یہاں
جو جاگتا ہے وہ بھی کہیں محو خواب ہے
یہ شہر گہری نیند میں جاتا نہیں کبھی
ہر شخص اپنے اپنے تئیں محو خواب ہے
اک اک ستارہ نیند کی ہیبت میں ہے شریک
وہ رات ہے کہ ماہ مبیں محو خواب ہے
آنکھوں سے اٹھ رہا ہے دھواں اور دھویں سے دکھ
جلتے ہوئے مکاں میں مکیں محو خواب ہے
پرکار چل رہی ہے کہیں گہری نیند میں
اے زیبؔ میرا حاشیہ بیں محو خواب ہے