کفر سے مطلب ہے نہ اسلام سے

کفر سے مطلب ہے نہ اسلام سے
ہے غرض معشوق خوش اندام سے


ہے غرض خم سے سبو سے جام سے
کام ہے ہم کو مئے گلفام سے


دفن کر کے ہائے کہتا ہے کوئی
قبر میں اب سو رہو آرام سے


قاف و لام و قاف ہے ہر دم ہمیں
خوش عدو ہے واؤ صاد و لام سے


کیا غرض آئیں عیادت کو وہ کیوں
ان کو کب فرصت ہے اپنے کام سے


حضرت آدم جو نکلے خلد سے
ہم بھی نکلے کوچۂ اصنام سے


چشم جاناں کی غلط تشبیہ ہے
اس کو کچھ نسبت نہیں بادام سے


جو حلاوت اس میں ہے اس میں کہاں
قند پھیکا ہے تری دشنام سے


جائیں ہم کہیے تو اے صابرؔ کہاں
واسطہ ہے اک بت خود کام سے