کچھ نہیں ہونے کے ادراک سے ڈرتا کیوں ہے
کچھ نہیں ہونے کے ادراک سے ڈرتا کیوں ہے
خاک ہونا ہے تو پھر خاک سے ڈرتا کیوں ہے
جب کسی دست زلیخا سے تعلق ہی نہیں
اپنے دامن کے کسی چاک سے ڈرتا کیوں ہے
ایسے موسم میں تو ہر شاخ پہ پھول آتے ہیں
آخر اس موسم نمناک سے ڈرتا کیوں ہے
کل ستاروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا
آج سیل خس و خاشاک سے ڈرتا کیوں ہے
ریشمی لفظ و بیاں سے سخن آرائی کر
اپنی ادھڑی ہوئی پوشاک سے ڈرتا کیوں ہے
وہ خود اپنے ہی کسی جال میں پھنس جائے گا
حوصلہ رکھ کسی چالاک سے ڈرتا کیوں ہے
یہ تو بس اک روش خاص پہ کرتی ہے سفر
آدمی گردش افلاک سے ڈرتا کیوں ہے