کچھ نئے خواب ہر اک فصل میں پالے گئے ہیں
کچھ نئے خواب ہر اک فصل میں پالے گئے ہیں
ہم اسی جرم میں بستی سے نکالے گئے ہیں
ابھی زنجیر جنوں پاؤں میں ڈالے گئے ہیں
دیکھ کس سمت ترے چاہنے والے گئے ہیں
کون اس شہر چراغاں میں ابھی آیا تھا
دور تک اس کے تعاقب میں اجالے گئے ہیں
حاکم وقت کے قدموں پہ سبھی ابن الوقت
رکھ کے دستار کو سر اپنا بچا لے گئے ہیں
تیرگی کیوں نہ مرے خانۂ ہستی میں رہے
وہ سبھی جلتے چراغوں کو اٹھا لے گئے ہیں
کیا کہیں گزرے ہوئے وقت کے بارے میں سلیمؔ
سخت مشکل سے دل و جاں یہ سنبھالے گئے ہیں