کچھ خبر نامہ بر نہیں آتی

کچھ خبر نامہ بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی


تھک گئے ہم تلاش کرتے ہوئے
اپنی منزل نظر نہیں آتی


بسری یادوں کا ہے جو دل میں ہجوم
رات ٹھہری سحر نہیں آتی


جب خودی کا خمار ہو جائے
خود سری راہ پر نہیں آتی


عکس بر آب ہے نظر لیکن
صورت چارہ گر نہیں آتی


درد و غم کی فغاں بھی ہے خاموش
یہ صدا اب ادھر نہیں آتی


کوئی صادقؔ کو ڈھونڈنے نکلے
اس کی کوئی خبر نہیں آتی