کچھ حقیقت ہے کچھ کہانی ہے
کچھ حقیقت ہے کچھ کہانی ہے
صرف کہنے کو حق بیانی ہے
عشق فانی رواں ہوا جب جب
حسرتوں پر چڑھی جوانی ہے
ناؤ ساحل پہ آ کے ڈوب گئی
ناخداؤں کی مہربانی ہے
جو دیے اوٹ میں تھے وہ ہی بجھے
یہ ہواؤں کی پاسبانی ہے
زرد پتوں نے مسکرا کے کہا
فصل گل ہے ہوا سہانی ہے
شام کی چائے ان کے ساتھ پیوں
دل کی حسرت بہت پرانی ہے
روشنائی بنائی اشکوں سے
میری غزلوں میں اب روانی ہے