کچھ بھولی اور کچھ تیکھی آوازیں ہیں
کچھ بھولی اور کچھ تیکھی آوازیں ہیں
جیسے چہرے ہیں ویسی آوازیں ہیں
اک تطہیر سے عاری جسم کا پرسہ ہیں
خوف میں لپٹی جتنی بھی آوازیں ہیں
چاروں جانب گھور اندھیرا ہے جس میں
آٹھوں جانب سننے کی آوازیں ہیں
ایسا محو ہوں خاموشی کو سننے میں
مانو مجھ سے پہلے کی آوازیں ہیں
گھور رہا ہوں کانوں کی ویرانی کو
چیخ رہا ہوں کیا گونگی آوازیں ہیں
اتنی وحشت طاری ہوئی کہ بھول گئے
یہ تو اپنی امدادی آوازیں ہیں
چونک رہا ہوں میرے ویراں کمرے میں
کوئی نہیں ہے پھر کیسی آوازیں ہیں
آوازوں کا جمنا اس سے ثابت ہے
جیسے ہم خاموشی کی آوازیں ہیں
دوست ہمارے پاس اضافی کچھ بھی نہیں
مرتی سسکیاں ہیں دبتی آوازیں ہیں