دل غموں کا مخزن ہے حسرتوں کا مسکن ہے
دل غموں کا مخزن ہے حسرتوں کا مسکن ہے
پھر بھی سایۂ امید اس میں سایہ افگن ہے
کہنگی کے دامن میں دہر کا نیا پن ہے
قصر ہے جو مدفن تھا باغ تھا وہ جو بن ہے
مختصر اگر کیجے شرح لفظ الفت کی
رات دن کی الجھن ہے عمر بھر کی سلگن ہے
خون دل سے لکھا ہے محضر وفا دیکھو
کس قدر مرصع ہے کس قدر مزین ہے
کم بساط پروانہ سوز عشق کیا جانے
جل بجھا وہ اک لو پر یاں مدام سلگن ہے
شوق دل حدی خواں ہے کاروان مستی میں
کس کو فکر رہبر ہے کس کو خوف رہزن ہے
اپنے خوش نصیبوں کا حال بھی کبھی سن لو
موت منہ چراتی ہے زندگی اجیرن ہے
ساری عمر ترسے ہیں اس کے اک تبسم کو
کس قدر حیا پرور زندگی کی دلہن ہے
ہم خلوص کے بندے ہم وفا کے دیوانے
اے رشیدؔ کیا جانیں دوستی بھی اک فن ہے