کوئی مقتول جفا ہو جیسے
کوئی مقتول جفا ہو جیسے
یعنی تصویر وفا ہو جیسے
بارہا یوں بھی ہوا ہے محسوس
کوئی مجھ میں ہی چھپا ہو جیسے
کتنا مستغنیٔ درماں ہے یہ
درد خود اپنی دوا ہو جیسے
یوں شب و روز گزارے تجھ بن
وقت سولی پہ کٹا ہو جیسے
اس تکلم پہ دل و جاں صدقے
آپ نے شعر کہا ہو جیسے
بات بے بات خفا ہو جانا
یہ بھی اک اس کی ادا ہو جیسے
اس طرح کھیل رہا ہے ہر شخص
زندگی ایک جوا ہو جیسے
دل مرحوم کا ماتم تو نہیں
ایک محشر سا بپا ہو جیسے
اب تو کچھ ایسا سکوں حاصل ہے
کسی عابد کی دعا ہو جیسے
چشمک برق ترا کیا کہنا
اسی کافر کی ادا ہو جیسے
اس طرح کاٹ رہا ہوں ہمدم
زندگی کوئی سزا ہو جیسے
آہ نا کردہ گناہی کی قسم
یہ بھی میری ہی خطا ہو جیسے
جنبش لب پہ گماں ہوتا ہے
نام میرا ہی لیا ہو جیسے
یوں بجھا آج چراغ امید
یہ بھی مفلس کا دیا ہو جیسے
اس طرح چھٹ گئے احباب و عزیز
گوشت ناخن سے جدا ہو جیسے
بندگی کون کرے بندہ نواز
اب تو بندہ ہی خدا ہو جیسے
لوگ کہتے ہیں جسے عہد شباب
یہ بھی دو دن کی ہوا ہو جیسے
مصحف رخ پہ گھنیری زلفیں
چاند بدلی میں چھپا ہو جیسے
یوں گرایا ہے نظر سے اس نے
اشک دامن پہ گرا ہو جیسے
یاد ایام گذشتہ طالبؔ
دل میں اک درد اٹھا ہو جیسے
اب تو طالبؔ یہ گماں ہوتا ہے
وہ مجھے بھول گیا ہو جیسے