کسی نظر میں سماؤں وہ ولولہ بھی دے

کسی نظر میں سماؤں وہ ولولہ بھی دے
نکھار بخشا ہے تو نے تو آئنا بھی دے


تمام لفظ ہی خاموش مصلحت کے شکار
زبان دی ہے تو کہنے کا حوصلہ بھی دے


گمان و وہم کے مابین تھک کے بیٹھ گیا
کہاں تلاش کروں کچھ اتا پتا بھی دے


نفس نفس کی اذیت سے بات کیا بنتی
مرے عزیز مجھے زخم جاں فزا بھی دے


چراغ ایسے اندھیروں میں ساتھ دیں کب تک
سفر ہی شرط اگر ہے تو راستہ بھی دے


مرا خلوص ترے مکر و فن سے ہار گیا
کہاں عذاب مکرر مجھے ہٹا بھی دے