تھے جو سکون جاں کبھی وہ بار بن کے چل دیے

تھے جو سکون جاں کبھی وہ بار بن کے چل دیے
سو ہم وفا کی راہ میں غبار بن کے چل دیے


جو رات آنکھ میں رہی تو سب نشہ ہرن ہوا
سرور بن کے آئے تھے خمار بن کے چل دیے


نگہ کو بھا رہیں ہیں کب وہ ساعتیں جو عیش تھیں
جو خیر بن کے آئے تھے وہ خار بن کے چل دیے


قرار تھے خمار تھے ہوا پہ وہ سوار تھے
وہ جو کہ نور عین تھے وہ نار بن کے چل دیے


وہ جو حلق کے پاس تھے جو تھے طلب جو پیاس تھے
جو دیر تک تھے آسرا وہ دار بن کے چل دیے


وہ بھولپن وہ سادگی فریب تھا وہ لہجہ ہی
جو مر رہے تھے یاں ابھی وہ مار بن کے چل دیے