اسی معمورے میں کچھ ایسے ہیں سودائی بھی
اسی معمورے میں کچھ ایسے ہیں سودائی بھی
جن کے کام آ نہ سکی تیری مسیحائی بھی
شکر ہے آپ کو میرے لیے زحمت نہ ہوئی
لیجئے کٹ گئی میری شب تنہائی بھی
بڑھ سکی جس سے نہ انگشت بہ لب نادانی
اسی منزل میں نظر آتی ہے دانائی بھی
اللہ اللہ رے گراں جانئ بیمار وفا
ناتوانی بھی ہے حیران توانائی بھی
وہ بھی تنکا نہ ملا ہاتھ بڑھایا تھا جدھر
چھٹ گیا ہاتھ سے دامان شکیبائی بھی
ہم یہیں بیٹھے رہے حسرت پابوس لئے
چوم کر پردۂ در باد صبا آئی بھی
شاعری اک دل مرحوم کا ماتم ہی نہیں
چاہیے اس میں رضاؔ فکر کی گہرائی بھی