کی خوب وفا ہم سے لی خوب خبر تو نے

کی خوب وفا ہم سے لی خوب خبر تو نے
دن رات ستم ڈھائے اے بانئ شر تو نے


کیا ہم نے بگاڑا ہے کیوں ہم کو ستاتا ہے
کیوں ظلم پر اے ظالم باندھی ہے کمر تو نے


اے موت تعجب ہے جو زینت گلشن ہے
کاٹے وہ شجر تو نے توڑے وہ ثمر تو نے


اللہ کے بندوں پر اے بت یہ ستم تیرے
رکھا نہ قیامت کا کچھ خوف و خطر تو نے


اس تیری بناوٹ سے ہے صاف ہمیں ظاہر
عاشق کے مٹانے پر باندھی ہے کمر تو نے


بیکار ہیں یہ نالے بے سود ہیں یہ آہیں
کھینچا نہ اگر ان کو اے جذب اثر تو نے


دل میرا جلایا کیا افسوس ہزار افسوس
برباد کیا اے بت اللہ کا گھر تو نے


جو بعد فنا تیرے کچھ کام نہیں آیا
کیوں جمع کیا منعم وہ مال وہ زر تو نے


ہم درد محبت سے تڑپا ہی کئے لیکن
اللہ رے بے دردی دیکھا نہ ادھر تو نے


صابرؔ یہ حماقت ہے ہے یہ تری نادانی
اپنے کو جو سمجھا ہے ہر ایک سے در تو نے


میں صبر کا خوگر ہوں ہے نام مرا صابرؔ
جابر ہے تو پایا ہے پتھر کا جگر تو نے