اور کوئی دم کی مہماں ہے گزر جائے گی رات

اور کوئی دم کی مہماں ہے گزر جائے گی رات
ڈھلتے ڈھلتے آپ اپنی موت مر جائے گی رات


زندگی میں اور بھی کچھ زہر بھر جائے گی رات
اب اگر ٹھہری رگ و پے میں اتر جائے گی رات


جو بھی ہیں پروردۂ شب جو بھی ہیں ظلمت پرست
وہ تو جائیں گے اسی جانب جدھر جائے گی رات


اہل طوفاں بے حسی کا گر یہی عالم رہا
موج خوں بن کر ہر اک سر سے گزر جائے گی رات


ہے افق سے ایک سنگ آفتاب آنے کی دیر
ٹوٹ کر مانند آئینہ بکھر جائے گی رات


ہم تو جانے کب سے ہیں آوارۂ ظلمت مگر
تم ٹھہر جاؤ تو پل بھر میں گزر جائے گی رات


رات کا انجام بھی معلوم ہے مجھ کو سرورؔ
لاکھ اپنی حد سے گزرے تا سحر جائے گی رات