خوگر عیش و مسرت دل خود کام نہیں
خوگر عیش و مسرت دل خود کام نہیں
ہے یہ آرام کی صورت مگر آرام نہیں
موت لائی ہے یہ پیغام کہ اس گھر سے نکل
تو نے جو کام کئے قابل انعام نہیں
دائمی زیست ہو درکار تو مرنا سیکھو
یہ وہ آغاز ہے جس کا کوئی انجام نہیں
دیکھ کر حشر میں نیکی و بدی کی فہرست
عشق ہے سر بہ گریباں کہ مرا نام نہیں
لوگ کہتے ہیں کہ وہ پوچھتے رہتے ہیں مگر
ان کی جانب سے تو اب تک کوئی پیغام نہیں
کب خدا جانے وہ خلوت سے بر آمد ہوں گے
محفل ناز ابھی جلوہ گہ عام نہیں
اس کو جس طرح بنائے کوئی بن جاتی ہے
زندگی خود سبب راحت و آلام نہیں