دل شوریدہ سر ہے اور میں ہوں
دل شوریدہ سر ہے اور میں ہوں
حریف فتنہ گر ہے اور میں ہوں
غم شام و سحر ہے اور میں ہوں
ستاروں پر نظر ہے اور میں ہوں
کسی کا سنگ در ہے اور میں ہوں
علاج درد سر ہے اور میں ہوں
جسے کہئے بلائے عہد پیری
وہ شام بے سحر ہے اور میں ہوں
جو پہلے تھا غم دل آج بھی وہ
بعنوان دگر ہے اور میں ہوں
وہ اپنا دل ادھر بہلا رہے ہیں
ادھر درد جگر ہے اور میں ہوں
قیامت بھی وہیں برپا ہوئی ہے
جہاں ان کی نظر ہے اور میں ہوں
ابھی باقی ہیں دو آوارۂ دشت
رہ غم میں خضر ہے اور میں ہوں
خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے
سوالم ختصر ہے اور میں ہوں
بجا ہے کیوں یہاں آنے لگے تم
یہ اک ویراں سا گھر ہے اور میں ہوں