کبھی میرا کبھی تیرا رہا ہے

کبھی میرا کبھی تیرا رہا ہے
زمانہ ایک سا کس کا رہا ہے


زبان و دل ہوئے ہیں جب سے پیدا
زبان پر دل کا افسانہ رہا ہے


اسے کیوں کر سمجھ لیں دل کی حرکت
تڑپتے ہیں کوئی تڑپا رہا ہے


رہے اتنا خیال اے چشم ساقی
وہی پیتا ہے جو پیتا رہا ہے


خدا جانے بہار آئے تو کیا ہو
ابھی سے دل مرا گھبرا رہا ہے


زمانے میں ہمیں اک نا سمجھ ہیں
جسے دیکھو ہمیں سمجھا رہا ہے


لبوں تک آ چکا ہے دم ہمارا
ابھی تک وہ مسیحا آ رہا ہے


ہم اپنے آپ ہی کو دیکھتے ہیں
رہا ہوگا خدا جس کا رہا ہے


مرا گھر دیکھ کر کہنے لگے وہ
یہاں تو کوئی دیوانہ رہا ہے


مے نو سے ہو وہ کیا لطف اندوز
شراب کہنہ جو پیتا رہا ہے