خوشبو کا جسم نور کا پیکر بدل گیا
خوشبو کا جسم نور کا پیکر بدل گیا
شبنم کی سرد آگ سے پتھر پگھل گیا
تتلی کے پیچھے دوڑتے بچے کو کیا ملا
ہاتھوں میں رنگ رہ گیا پاؤں پھسل گیا
آنچل میں دھوپ زلف میں شعلوں کی آنچ ہے
جائیں کہاں کہ پیار کا موسم بدل گیا
ماضی کی خانقاہ سے باہر تو دیکھیے
خوابوں کی رت چلی گئی سکہ بدل گیا
اپنا سا یہ کوئی پس آئینہ کون ہے
آنکھوں میں آج کس لئے ساون مچل گیا
دیوانہ چیخ چیخ کے ملبے پہ سو گیا
پچھلے برس یہیں تھا مرا گھر کہ جل گیا
پھر آج اس کے لمس میں جکڑا ہوا ہوں میں
پھر آج خواہشوں کا سمندر ابل گیا