گلشن گلشن خاک اڑی اور ویرانوں میں پھول کھلے
گلشن گلشن خاک اڑی اور ویرانوں میں پھول کھلے
اب کے برس یوں موسم بدلا زندانوں میں پھول کھلے
خوشبو رت نے جاتے جاتے دل پر ایسی دستک دی
بھولی بسری یادیں جاگیں گل دانوں میں پھول کھلے
جوئے لہو آنکھوں سے پھوٹی کشت وفا سیراب ہوئی
خون گلو جب دشت پہ چمکا افسانوں میں پھول کھلے
ڈوب سکو تو پیار کا ساگر آج بھی ہے پایاب بہت
ساحل سے کیا دیکھ سکو گے طوفانوں میں پھول کھلے
آج اچانک اس کوچے میں لے آئے آوارہ قدم
جس کوچے میں برسوں گزرے ارمانوں میں پھول کھلے
خواب ہوئے وہ دن جب دل کی باتوں میں آ جاتے تھے
اب تو یہ بھی یاد نہیں کب پیمانوں میں پھول کھلے